عشق مجازي کان عشق حقیقي جو سفر (افسانو)

کليل ڄاڻ چيڪلي، وڪيپيڊيا مان

مشهور ڊراما نگار نور الهدي شاهه شب برات تي هڪ اثرائتو مضمون لکيو.

گذريل رات معافي جي رات طور ملهائي وئي. سڀني کان معافي گهري ۽ صبح جو سمهڻ لڳي. سوشل ميڊيا ان کي وڌيڪ آسان بڻائي ڇڏيو آهي. انشاءَ الله، وائي فائي قيامت جي ڏينهن به ڪم ڪندو ۽ ائين ئي اسان سوشل ميڊيا ذريعي هڪ ٻئي سان رابطي ۾ رهنداسين. جيڪڏهن قيامت جي ڏينهن به بندن جا حق ايتري آسانيءَ سان معاف ڪيا وڃن ته پوءِ يقيناً حساب ڪتاب ننڍو ٿيندو ۽ اسان جلد کان جلد جنت جي ايئر ڪنڊيشنڊ هال ۾ پهچي وينداسين.

بخشش جي ان رات مان حيدرآباد کان ڪراچي وڃي رهيو هوس. جڏهن سوشل ميڊيا تي معافي نامو پڙهي ان سفر دوران مون کي هڪ ذاتي تجربو ياد آيو.

اٽڪل ڇهه سال اڳ دبئي جي هڪ اسپتال ۾ منهنجي نواسي ستين مهيني جي شروعات ۾ وقت کان اڳ پيدا ٿي هئي. هوءَ منهنجي خاندان جو پهريون ٻار هو. شادي جي چئن سالن کان پوءِ منهنجي ڌيءَ کي هڪ ٻار ٿيو. پر انهن حالتن ۾ به، اهو محسوس ٿيو ته اهو مڪمل نه ٿيو. هڪ بالن وارو ننڍڙو ننڍڙو بندر جنهن جو سڄو هٿ منهنجي هڪ آڱر تي لڳل آهي.

ڇا نواسی بچندي؟ يا نه؟ جيڪڏهن ٻار زنده رهي ته ڇا هوءَ نارمل ٿي ويندي؟ يا نه؟ انهن سوالن جو جواب ڊاڪٽرن وٽ به نه هو سواءِ ان جي ته ”سڀ ڪجهه الله جي اختيار ۾ آهي“. هر روز ڊاڪٽر چوندو هو ته، ”بس! هاڻي ٻار مرڻ چاهي ٿو، فوري طور اسپتال پهچو". اسپتال پهچي ويندا. ڇوڪريءَ کي وري ساهه کڻڻ لڳندو هو ته مون ڪنهن اميد سان گهر موٽي ويندي هئي. پر ٻئي ڏينهن، اميد وري مري ويندي. ڪڏهن بلڊ پريشر هاءِ ٿي ویندو هو ته ڪڏهن گهٽ، ايتري قدر جو آڱريون نيري ٿي وڃن. پڇڻ تي کين ٻڌايو ويو ته ”جيڪڏهن رت جي گردش معمول تي اچي وڃي ته اهي ٺيڪ ٿي ويندیون، ٻي صورت ۾ اهي جسم جو غير فعال حصو بڻجي ويندیون“. اهڙيءَ طرح، ڪڏهن شوگر ليول وڌيڪ ٿي ویندو ھو ته ڪڏهن گهٽ. وينٽيليٽر تي بيٺي بيٺي ڇوڪري اسان جو ساهه کسي ورتو. ڪڏهن ڪڏهن دماغ جي ٽيسٽ مان ظاهر ٿئي ٿو ته ٻار ذهني طور تي نارمل نه هوندو. ڪڏهن ڪڏهن دل ۾ سوراخ هوندو هو. ڪڏهن ڪڏهن اکين جو مسئلو به اچي ويندو هو. مٿيان قيمت ايتري ته هئي جو پندرهن ڏينهن جو بل ٽي لک درهم ٿي ويو.

منهنجي حالت اها هئي ته منهنجي سامهون منهنجي ئي ڌيءَ جا ڳوڙها ۽ ان جي ٻار جي ناممڪن زندگي هئي. مون ٿڪجي پئي. هڪ دفعي ڊاڪٽر کي به چيو ته "کيس بچائڻ جي ڪوشش نه ڪيو وڃي، جيتوڻيڪ هوءَ جيئري رهي، مون کي خبر ناهي ته هوءَ ڪهڙي حالت ۾ هوندي؟" ڊاڪٽر چيو، ”تون ڪير آهين جو ان جي زندگي وٺڻ جو فيصلو ڪيو وڃي؟"

اهڙي ئي حالت ۾ هڪ ڏينهن نماز ۾ بيٺي ته روئڻ لڳي. الله تعاليٰ کي مخاطب ٿيندي چيائين ته "اي الله! مون ڪهڙو گناهه ڪيو آهي؟ جو هن سزا جو مستحق آهيان؟"

بالکل ہی اگلے لمحے چھپاک سے ایک منظر کی تصویر اور اس میں ایک چہرہ صرف ایک سیکنڈ کے لیے میری نگاہ یا ذہن سے گزر گیا اور حیرت کی بات کہ اگلے سیکنڈ میں مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے کیا دیکھا تھا۔

پوری نماز اسی کشمکش میں گزری پر یاد ہی نہ آیا۔ اگلے دو دن، دبئی کی سڑکوں پر ہسپتال اور گھر کے بیچ آتے جاتے، رات کو بستر میں، میں اسی کشمکش سے گزرتی رہی۔ پر یاد ہی نہ آیا کہ دیکھا کیا تھا میں نے۔ اپنے جتنے بھی گناہوں اور خطاؤں کی فہرست میرے ذہن میں تھی، انہیں گنتی رہی مگر کسی سے اس منظر کا نشان نہیں مل رہا تھا۔

دو دن بعد اچانک یاد آ گیا کہ وہ کیا منظر اور چہرہ تھا۔

پندرہ برس پرانا وہ واقعہ مجھے کبھی بھی یاد نہ آیا تھا۔

میری ایک بہت ہی قریبی رشتہ دار لڑکی، شوہر اور حالات کے ہاتھوں ستائی ہوئی، دو بچوں کو ساتھ لیے چھوٹے سے ٹاؤن سے حیدرآباد شفٹ ہوئی تھی کہ اس کا تو مستقبل تاریک تھا ہی پر کسی طرح بچوں کا مستقبل سنور جائے۔ اس کے بیٹے بیٹی کو میں نے حیدرآباد کے بہت ہی اچھے اسکولوں میں داخل کروایا۔ اسے بچوں سمیت تب تک اپنے گھر میں رکھا جب تک ان کی رہائش کا بندوبست نہ ہوا۔ اسی دوران اس کی بیٹی کا نویں کلاس کا بورڈ کا امتحان بھی ہوا اور وہ بچی اے گریڈ مارکس لے کر پاس ہو گئی۔ رزلٹ کے اگلے دن وہ بچی روتی ہوئی اسکول سے لوٹی۔ پتہ چلا کہ کلاس ٹیچر مس حبیب النسا نے اسے پوری کلاس کے سامنے کہا ہے کہ تم تو اتنے نمبر لینے والی نہیں ہو۔ کس سے سفارش کروائی ہے؟ بھری کلاس میں اس بے عزتی پر وہ بچی بری طرح رو رہی تھی۔ بچی کی حالت دیکھ کر ماں بھی رو رہی تھی۔ اوپر سے بچی نے کہہ دیا کہ اب وہ اس اسکول نہیں جائے گی۔

میں ہمیشہ سے مظلوم کے حق کے لیے لڑنے مرنے پر تُل جانے والی رہی ہوں اور اس طرح کے جھگڑوں میں خدائی فوجدار کی طرح کوُد پڑنے کی عادت رہی ہے میری۔

فوراً گاڑی نکالی اور پہنچ گئی اسکول۔ حیدرآباد کے اکثر لوگ مجھے پہچانتے تھے۔ میں سیدھی پرنسپل کے آفس میں گئی اور ہنگامہ مچا دیا کہ ایک بچی اپنی محنت سے پڑھی ہے۔ ایک چھوٹے ٹاؤن سے مستقبل بنانے آئی ہے اور حالات کی وجہ سے پہلے سے ہی سہمی ہوئی ہے۔ اس کی اس طرح ٹیچر حبیب النسا نے پوری کلاس کے سامنے انسلٹ کی ہے!

میرے ہنگامے پر مس حبیب النسا کو حاضر کیا گیا۔ سادہ سی خاتون مگر چہرے پر ٹھہراؤ۔ کہنے لگیں ہاں میں نے کہا ہے، کیونکہ مجھے وہ بچی اتنی ہوشیار نہیں لگتی جتنے نمبر اس نے لیے ہیں۔ یقیناً یا سفارش کی ہے، یا کاپی کی ہے۔

مجھے پتہ تھا کہ وہ بچی بچاری سفارش کروانے کی طاقت نہیں رکھتی۔ نہ ہی اپنی سہمی ہوئی شخصیت کی وجہ سے کاپی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ رٹے مار کر اس نے امتحان دیا تھا اور اتفاق سے وہی سوال آگئے جن کے جواب اسے یاد تھے۔

میں مس حبیب النسا پر برس پڑی کہ یہ کہاں کا انصاف ہے! آپ صرف چھوٹے شہر کی بچی دیکھ کر اسے کمتر قرار دے رہی ہیں اور اس کا مستقبل برباد کر رہی ہیں۔ میری آواز یوں بھی بھاری ہے، اس میں مزید گرج آ گئی۔ مس حبیب النسا اسکول کی باقی ٹیچرز کی بھی ناپسندیدہ تھیں۔ سو ان کی کھنچائی کا تماشہ دیکھنے پرنسپل کے آفس کے باہر ٹیچرز جمع ہوگئیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی خوش تھیں کہ چلو کوئی تو ہے مس حبیب النسا کو سنانے والا۔

قصہ مختصر کہ پرنسپل نے بھی انہیں کچھ سخت الفاظ کہے اور میرے ساتھ میرے گھر آ کر اس بچی کو سوری کہا۔ راستے بھر وہ بھی مس حبیب النسا سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی آئیں۔۔۔۔۔۔ یوں یہ معاملہ تمام ہوا۔

یہ نیتاً میری ایک نیکی تھی۔ ایک مظلوم ماں اور اس کی بچی کی مدد۔

اس کے بعد کے برسوں میں اُس فیملی کے اور بھی کئی مسائل حل کرتے ہوئے اور دکھ سکھ بانٹتے ہوئے یہ واقعہ میرے ذہن سے بالکل ہی اتر گیا۔ یہاں تک کہ بعد میں جب میں خود زندگی کی ایک بہت بڑی آزمائش سے گزری اور اسی فیملی نے میرے ساتھ بُرا رویّہ رکھا تو بھی وہ بات ماضی میں اُن پر اپنے احسان کے طور پر بھی یاد نہ آئی۔ جس طرح انسان اپنے ساتھ برا کرنے والوں پر کیے گئے احسانات فطری طور پر یاد کرتا ہے۔

دبئی میں جب سسک کر نماز میں میں نے اللہ کو کہا کہ مجھ سے ایسی کیا غلطی ہوگئی ہے جس کی سزا میں مجھ پر اولاد کی تکلیف آ گئی ہے۔۔۔ جواب میں وہ حیات اسکول کی پرنسپل مس بِلو کے آفس کے اس منظر کی ایک سیکنڈ کی تصویری جھلک اور مس حبیب النسا کا چہرہ تھا۔

میں کراچی آئی۔

میری ایک کزن مس حبیب النسا کے ساتھ اسی اسکول میں پڑھاتی رہی تھیں اور وہ بھی مس حبیب النسا سے ناراض رہا کرتی تھیں، اور ان کی بیٹی سلویٰ مس حبیب النسا سے ان کے گھر پر جا کر قرآن بھی پڑھی تھی اور اسکول میں بھی پڑھی تھی۔ میں نے سلویٰ سے مس حبیب النسا کا نمبر مانگا اور اسے پوری بات بتائی۔ جواب میں اس نے کہا کہ آپ کو صحیح جواب ملا ہے۔ میں نے بچپن مس حبیب النسا کے پاس قرآن پڑھتے ہوئے گزارا ہے۔ وہ حافظِ قران ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث سنَد کے ساتھ پڑھی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے اپنے ضعیف والدین کی خدمت میں جوانی گزار دی مگر شادی نہ کی کہ والدین کو ان کی ضرورت تھی۔ اپنے آخری دنوں میں ان کے والد بہت ہی ضعیف اور مشکل ہو گئے تھے مگر وہ کبھی اس مشکل ڈیوٹی میں اُف تک نہ کہتی تھیں بلکہ والد کے پیچھے پیچھے دوڑی دوڑی پھرتی تھیں۔ ان کے غسل خانے کے کام بھی وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں۔ مگر وہ لوگوں کو اس لیے پسند نہیں کہ منہ پر صاف صاف اور سچ بولتی ہیں۔ سلویٰ سے نمبر لے کر میں نے مس حبیب النسا کو فون کیا۔ میرا نام سن کر وہ خوش ہو گئیں۔ میں نے کہا کہ میں ایک ضروری کام کے سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ فوراً کہا کہ آ جائیے۔

اگلے دن صبح ہوتے ہی میں کراچی سے حیدرآباد سیدھی ان کے گھر ان کے آگے ایک ہی صوفہ پر بیٹھی تھی۔ وہ کچھ بوڑھی اور کمزور ہو چکی تھیں۔ اس بات پر خوش تھیں کہ ایک مشہور رائٹر خاص طور پر ان سے ملنے آئی ہے۔

خوش ہو کر کہنے لگیں کہ میں ریٹائر ہو چکی ہوں اور حیات اسکول چھوڑ چکی ہوں اور ایک پرائیویٹ اسکول میں پرنسپل ہوں۔ آپ کا فون آیا تو میں نے اپنی ٹیچرز کو بتایا کہ نورالہدیٰ شاہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ میری ٹیچرز نے کہا کہ ان کا بیوہ عورت کے حقوق سے متعلق ایک ڈرامہ چل رہا ہے۔ وہ اس موضوع پر آپ سے شرعی مشورہ کرنا چاہتی ہوں گی۔

میں نے کہا، آپ کو یاد ہے میں حیات اسکول میں آپ کی شکایت لے کر آئی تھی؟

انہوں نے لمحہ بھر سوچا، پھر انکار میں سر ہلا دیا کہ مجھے یاد نہیں۔

میں نے یاد دلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ پرنسپل کے آفس میں میں بہت اونچی آواز میں سخت الفاظ کے ساتھ آپ سے لڑی تھی۔۔۔ آپ کو یاد ہے؟ ذرا سوچا، پھر انکار میں سر ہلا دیا۔

میں نے کہا کہ میں نے تقریباً آپ کی انسلٹ کی تھی، آپ کو یاد نہیں؟

کہنے لگیں کہ مجھے ایسا کچھ بھی یاد نہیں پڑتا۔

قریب ہی بیٹھے ہوئے میں نے جھک کر ان کے پیر چھو لیے اور ان کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں نے ایسا کیا تھا اور میں آپ سے اپنے اس عمل کی معافی مانگنے آئی ہوں۔

مس حبیب النسا نے ایک دم سے معافی کے لیے جڑے میرے ہاتھوں کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ یہ نہیں پوچھا کہ آج اتنے برسوں بعد کیسے یہ خیال آیا اور کس مجبوری نے تمہیں جھکایا ہے۔ انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ میں نے آپ کو دل سے معاف کیا۔ اللہ میری معافی آپ کے لیے قبول فرمائے اور آپ جس بھی مشکل میں ہیں اسے آسان کرے اور آپ پر آئی ہوئی آزمائش کو معاف کرے۔۔۔

اس کے بعد انہوں نے بات بدل دی۔ بڑی دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہیں۔ بڑے شوق سے مجھے کھلاتی پلاتی رہیں۔ دعاؤں کے ساتھ مجھے خدا حافظ کہا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے بات کا رُخ اس طرف آنے ہی نہیں دیا کہ میں اپنی مجبوری کی اصل کہانی انہیں سناتی۔

چند دنوں بعد میں واپس دبئی لوٹ گئی جہاں اینکیوبیٹر میں ایک ننھی سی جان میں ہماری جان پھنسی ہوئی تھی۔

میری وہ نواسی اس سال ستمبر میں چھ سال کی ہو جائے گی۔ ماشالله بہت ہی شرارتی ہے۔ بہت ہی ذہین اور باتونی۔ گھنگریالے بالوں اور بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ بالکل ہی گڑیا سی لگتی ہے۔ اللہ نے اسے ہر عیب سے بچا لیا۔ بس ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی اوپر کی پور نیلی پڑنے کے بعد دوبارہ نارمل حالت میں نہیں آئی اور انگلی سے جھڑ گئی۔ اس ایک پور کی کمی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی تخلیق کا معاملہ کیا ہے اور کس کے ہاتھ میں ہے۔

مس حبیب النسا آج بھی حیات ہیں۔

مگر یہ تجربہ مجھے سکھا گیا کہ معافی دراصل کیا چیز ہوتی ہے اور نیکی کرنے کا تکبر انسان کو کس طرح سزا کا مستحق بناتا ہے اور یہ کہ نیکی خود ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ نیکی ہے بھی کہ نہیں۔۔۔ اسی لیے یہ دریا میں ڈالنے والی چیز ہے۔ اور یہ جانا کہ ہم محض اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم رسمی معافی تلافی کرتے ہوئے پچھلی گلی سے بہشت کی طرف نکل جائیں گے۔

معافی آپ کی انا کے ٹکڑے ٹکڑے مانگتی ہے جو رب کو نہیں چاہیں، بلکہ اس انسان کے پیروں میں جا کر رکھنے ہوتے ہیں، جس کے ساتھ آپ نے زیادتی کی ہوتی ہے

ایک پرانی تحریر اها 10 جون، 2000ع جي تاريخ هئي ۽ آئون ڪنھن بي جان لاش يا وجود جيان ڪراچي جي مشهور وارڊ، سنڌ انسٽيٽيوٽ آف يورولاجي اينڊ ٽرانسپلانٽيشن (SIUT) جي هڪ ساف سٿري بيڊ تي پيل هيس۔

گذريل ٽن سالن کان مون کي گردن، چيلھ ۽ نرن ۾ شديد سور پوندڙ هو ۽ ڊسمبر، 1999ع ۾ جسم جو هيٺيون ڌڙ انتهائي ڪمزوريء ۽ شديد سور جي ڪري ڪم ڇڏي چڪو جنهن ڪري مان لڪڻ جي سهاري کان سواء نه هلي سگهندو هيس۔ هلڻ جو انداز ڪجهه اهڙو هو جيئن جابلو علائقي جو ڪو پيرسن ماڻهو جبل تي زور لڳائڻ جي ڪري جهڪي هلندو آهي۔ پر سال جي آخري ڏهاڪي ۾ لڪڻ جي سهاري سان به مشڪل سان ڏهاڪو کن وکون کڻي ڪري پوندو هيس ۽ شديد ڪمزوريء ۽ لاغر پڻي جي ڪري اٿي نه سگهندو هيس جنهن ڪري مون کي پيپلز ميڊيڪل ڪاليج اسپتال (PMC) نوابشاھ جي سرجيڪل۔2 وارڊ ۾ داخل ڪيو ويو پر هڪ مھربان ڊاڪٽر جنهن جو تفصيلي ذڪر اڳتي ڪندس ان مون کي سنڌ انسٽيٽيوٽ آف يورولاجي اينڊ ٽرانسپلانٽيشن (SIUT) ڪراچي وڃڻ جو مشورو ڏنو جنهن کان پوء مان ڪراچي پھتس جتي جڳ مشهور ڊاڪٽر محترم اديب رضوي جي نگرانيء ۾ منھنجون مختلف ٽيسٽون ۽ سي ٽي اسڪين ٿي۔ جنھن کان پوء منهنجي جيري جو ٽڪرو ڪڍي آغا خان اسپتال موڪليو ويو ۽ رپورٽ اچڻ کان پوء منهنجو علاج شروع ڪيو ويو۔ جون، 2000ع ۾ ٽيون ڊوز لڳرائڻ لاء هتي پهتو هيس۔ الائي ڪھڙي قسم جون انجيڪشنون ڊرپ ۾ ملائي لڳايون وينديون هيون جو پنجن منٽن جي اندر دست ۽ الٽي شروع ٿي ويندي هئي جيڪا بعد ۾ ڊوز ختم ٿيڻ کان پوء به ڏهاڪو ڏينهن کن بند نه ٿيندا هئا۔ علاج دوران ان جو داڻو به نڙي هيٺ نه لھندو هيو ۽ معدو مسلسل خالي رهندو هو ۽ پاڻي ايڏو ڪڙو لڳندو هو ڄڻ ڪا تيز زهريلي شي پيتي هجي۔ پاڻي نڙيء مان لهڻ کان پوء اندر کي ايئن چيريندو ويندو هو ڄڻ اندر ڪير وڍيندو هجي ان ڪيفيت ۾ صرف انب جو جوس زوريء پيئڻو پوندو هو جيڪو به ڪڙو لڳندو هو ۽ اهو به ٻن منٽن ۾ الٽي وسيلي نڪري ايندو هو۔ کاڌي نه کائڻ ۽ دست ۽ الٽي جي ڪري اهڙي ڪمزوري طاري ٿي ويندي هئي جو جسم ڪم ڪرڻ ڇڏي ويندو هو۔ صرف ڏسي، ٻڌي ۽ اکيون ڇنڀي سگهندو هيس ڳالهائڻ جي طاقت به نه رهندي هئي ڄڻ ڪنهن لاش جيان پيو هوندو هيس، هر اڌ ڪلاڪ کان پوء ڪا نرس يا وارڊ بواء جسم جو پاسو مٽائي ويندو هو۔ گهڻي ڪمزوريء جي ڪري علاج ۾ ڪجهه وقفو ڪيو ويندو هو ۽ طاقت جون دوائون ڏنيون وينديون هيون ته جيئن ٻيھر ڊوز جون انجيڪشنون سھڻ جي قابل ٿي سگهان۔ اڄ به بي جان لاش جيان بيڊ تي پيو هيس ۽ اکيون بند هيون ته منھنجي وارن کان خالي گنجي مٿي تي ڪنهنجي هٿن جو لمس محسوس ڪندي اکيون کوليم۔ اهو ڊاڪٽر مجاهد حسين هو جيڪو هر روز ٻه ٽي ڀيرا مون سان ملڻ ايندو هو، کلي ڳالهائيندو هو ۽ طبيعت پڇڻ کان پوء همت ۽ حوصلي ڪرڻ جون نصيحتون ڪندو هو۔ سندس لهجو ڪنهن شفيق ماء جيان محسوس ٿيندو هو۔ سندس رويو دوستاڻو هوندو هو ۽ سندس چھري تي هر وقت مرڪ هوندي هئي جيڪا منهنجي ٻڏندڙ ساهن کي ڪجهه دير جي لاء تاري وجهندي هئي۔ ڊاڪٽر اردو ۾ پڇيو منهنجي دوست جي هاڻي طبيعت ڪيئن آهي؟ آئون: تمام گهڻي ڪمزوري آهي (هيڻي ۽ جهڪي آواز ۾ وراڻيم)۔ ڊاڪٽر: ڪمزوري ختم ٿي ويندي جوس پيئندو ڪر۔ مون: (ڊاڪٽر ڏي بيوسيء ۽ مايوسيء مان نهاريندي پڇيو): مون کي ڪھڙي بيماري آهي؟ ڊاڪٽر وراڻيو ته گردن جي تڪليف آهي تون ٺيڪ ٿي ويندي۔ مون ڊاڪٽر کي چيو ته ڊاڪٽر صاحب آئون هڪ استاد ۽ پڙهيو لکيو ماڻهو آهيان توڙي جو کڻي مون کي ميڊيڪل جي باري ۾ ايتري ڄاڻ ناهي پر منهنجي فائيل ۾ هڪ لفظ (ڪيمو ٿراپي) لکيل آهي ۽ مون کي اها به خبر آهي ته ڪيمو ٿراپي ڪينسر جي علاج کي چئبو آهي ۽ منهنجي مٿي ۽ سڄي جسم تان وار ڇڻي چڪا آهن مون کي اها به ڄاڻ آهي ته ڪينسر جي علاج ۾ وار به ڇڻندا آهن۔ مون کي صرف اهو ٻڌايو ته مون کي ڇا جي ڪينسر آهي؟ ڊاڪٽر جي اکين ۾ مون پهريون ڀيرو ڳوڙها ڏٺا ۽ مون کي دلاسو ڏيندي چيائين ته تون هڪ استاد آهين، بھادر آهين ان ڪري تو کي ٻڌايان ٿو ته تو کي جگر جي ڪينسر آهي۔ مون ڊاڪٽر جا اهي لفظ ٻڌا پر ڪمري جي ڇت کي مون گهمندي محسوس ڪيو۔ ڊاڪٽر پوء هي به ٻڌاء ته مون وٽ ڪيترو وقت آهي ڇو ته مون کي هڪ اهم ۽ ضروري رهجي ويل ڪم پورو ڪرڻو آهي۔ ڊاڪٽر جواب ۾ صرف ايترو وراڻيو ته علاج ڪيون پيا ۽ سندس اکين مان هڪ ڀيرو ٻيهر لڙڪ وهي آيا ۽ آئون بيھوش ٿي ويس۔ جڏهن مون کي هوش آيو ڏٺم ته منهنجي مٿان رش لڳي پئي آهي ڊاڪٽر اديب رضوي سميت ڪافي ڊاڪٽر منهنجي مٿان مڙيا پيا هئا۔ جڏهن سامت ۾ آيس ته ڊاڪٽرن مون کي آرام جو چيو ۽ هڪ ليڊي ڊاڪٽر کان سواء ٻيا ڊاڪٽر هليا ويا۔ منهنجي ذهن ۾ بار بار هي لفظ گونجي رهيا هئا۔ (جگر جي ڪينسر۔۔۔۔۔علاج هلي پيو۔۔۔۔۔۔۔) ٻئي لمحي ذهن ۾ خيال اچڻ لڳا مطلب آئون مران پيو سو به محبوب کي ڏسڻ کان سواء؟ نه نه مون کي علاج جي ضرورت ناهي، مون کي موت کان اڳ ۾ وڃائجي ويل محبوب کي ڳولڻو آهي ان جي ديدار ڪرڻ کان اڳ ۾ نه مرندس۔ اهو سوچيندي مون کي ننڊ اچي وئي۔ 11 جون، 2000ع جي صبح جو 8 بجي ننڊ مان سجاڳ ٿيس ڊاڪٽر مٿان اچي ٽيمپريچر ۽ بلڊ پريشر چيڪ ڪيو ۽ لاڳيتا ٻه دٻا جوس جا پياريائين۔ مون ڊاڪٽر کي چيو مون کي گهر فون ڪرڻي آهي PCO تي وڃڻ جي اجازت ڏيو ۽ وارڊ بواء کي چؤ ته ويل چيئر تي مون کي هيٺ PCO تي وٺي هلي۔ ان وقت اڃا موبائيل فون نه آئي هئي۔ ڊاڪٽر وارڊ بواء کي سڏي مون کي وهيل چيئر تي کڻي PCO تي وٺي وڃڻ جو چيو۔ وارڊ بواء مون کي کڻي وهيل چيئر تي ويھاريو ۽ لفٽ ذريعي هيٺ لاهي سول اسپتال جي گيٽ کان ٻاهر ڪڍي منهنجي اشاري تي هڪ PCO تي وٺي آيو۔ مون کيس اڌ ڪلاڪ بعد واپس اچڻ جو چيو ۽ هو هليو ويو۔ مون کي ڪابه فون نه ڪرڻي هئي در حقيقت منهنجا ڪپڙا ان PCO تي رکيل هوندا هيا ڇو ته SIUT ۾ انهن جي پنهنجي ڊريس هوندي آهي۔ جيئن ته مون سان اسپتال ۾ ڪو اٽينڊنٽ نه هوندو هو ان ڪري پنهنجو سامان PCO تي رکندو هيس ۽ ان سان منهنجي سٺي عليڪ سليڪ ٿي وئي هئي ۽ آئون ڪاکھ ئي فيصلو ڪري چڪو هيس ته اسپتال جي بستري تي مرڻ کان بهتر آهي ته پنهنجي وڃائجي ۽ وڇڙي ويل محبوب کي ڳولي لھان يا ڳوليندي مران۔ ان ڪري اتي ڪپڙا مٽايم ۽ PCO واري کي ٽيڪسي گهرائي ڏيڻ جو چيم۔ ٿوري دير ۾ ٽيڪسي ۾ چڙهي سول اسپتال کي الوداع ڪري نواب شاھ ويندڙ شاليمار ايڪسپريس جي اڏي تي پهتس جتي ٽيڪسي واري سهارو ڏئي ڪوچ ۾ ويهاريو جنهن تي چڙهي نواب شاھ پهتس جتي رات هڪ دوست وٽ گذاري۔ صبح جو رڪشي ۾ چڙهي منهنجي محبوب جي شھر ويندڙ بس ۾ چڙهي سندس شهر پهتس۔ مون کي فقط سندس نالي ۽ ذات جي خبر هئي شهر جو نالو به ڪنهن دوست ٻڌايو هو ته تنهنجو محبوب فلاڻي شهر جو آهي۔ بس مان ڪنڊيڪٽر لاهي روڊ جي ڀر ۾ ويهاري ڇڏيو ٿوري دير کان پوء اشاري تي هڪ رڪشي وارو آيو جنهن کي چيم ته هلي نه ٿو سگهان مون کي رڪشي ۾ ويهار۔ رڪشي واري مون کي رڪشي ۾ ويهاريو ۽ مون کيس هڪ روڊ بابت ٻڌايو جتي هن مون کي هڪ درويش جي مزار جي ڀرسان ڀت جي پاڙ ۾ ويهاريو ۽ ڪرايو وٺي واپس هليو ويو۔ اهو روڊ ۽ درويش جي مزار منهنجي لاء مانوس هئي آئون گذريل ٽن سالن کان ان جاء تي ايندو رهندو آهيان ۽ ڪئي ڪئي ڏينهن ڪنهن فقير يا ديواني جيان پنهنجو پاڻ کان بي خبر ٿي هر ايندڙ ويندڙ ڏي ڏسندو ۽ انهن ۾ ان محبوب جو چھرو ڳوليندو رهيو آهيان جنهن جي عشق مون کي مون کان وڃائي عشق جي دنيا ۾ پير پارايو ۽ هن دنيا کان ڪٽي مجذوب سان گڏ شاعر به بنائي ڇڏيو هو۔ اڄ ان ساڳي جاء تي ان اميد سان پاڻ کڻائي علاج اڌ ۾ ڇڏي پهتو هيس ته مرڻ کان اڳ پنهنجي محبوب جو ديدار پسان۔ اڄ 12 جون، 2000ع جو ڏينهن هو۔ 12 جون منهنجي زندگيء سان هميشه جڙيل ۽ منهنجي لاء نهايت اهم رهيو آهي۔ 12 جون 1974ع تي منهنجو جنم ٿيو هو۔ 12 جون 1996ع ۾ مون کي منهنجي محبوب جو ديدار پهريون ڀيرو ٿيو هو ۽ مون کي عشق جي دنيا پنهنجي حصار ۾ ورتو هو ۽ اڄ به 12 جون 2000ع ۾ ڪينسر جهڙي مرض جو علاج ڇڏي محبوب سائينء جي شهر پهتو هيس پر تقدير جا رنگ ڏسو جو اڄ 12 جون 2000ع تي منهنجي محبوب جي حيدرآباد ۾ شادي ٿي رهي هئي ۽ آئون سندس شهر ۾ فٽ پاٿ تي لاوارث حالت ۾ سندس ديدار جي آس لڳائي ويٺو هيس۔ اڄ محبوب سائين جي شھر ۾ فوٽ پاٿ تي گذاريندي پنجين رات پئي آهي۔ گذريل ٽن سالن جيان هي پنج ڏينهن به صرف واجهائيندي گذري ويا پر هر ڀيري جيان هن ڀيري به اکيون اڃاريون رهجي ويون ۽ ديدار جون دعائون نه اگهامي سگهيون۔ مون کي ته پڪ به ڪانه هئي ته هوء هن شھر جي آهي به الائي نه بس مختلف ماڻھن جي ڏس تي کيس هن شهر جو سمجهي هتي ايندو رهندو هيس جيئن مختلف ماڻھن جي ڏسن تي کيس گذريل ٽن سالن دوران شھداد پور، حيدرآباد، ڄامشورو، ڪراچي، نواب شاھ، سانگهڙ، مورو، ڪوٽڙي، هالا، راولپنڊي ۾ به ڳوليندو رهيو هيس جن جو اڳتي ذڪر ڪندس۔ بس جيڪو جتي جو ڏس ڏيندو هيو اوڏانهن نڪري ڪڏهن هفتن جا هفتا ته ڪڏهن مهينن جا مهينا کيس ان شهر ۾ ديوانن وانگر ڳوليندو رهندو هيس ايئن ئي هن شهر بابت ڪنهن ٻڌايو هو ته سندس اباڻو شهر هي آهي ۽ سندس ان ڳالھ تي يقين ڪندي گذريل ٽن سالن کان هتي وقت بوقت ايندو رهندو هيس۔ مون کي يقين هو ته هڪ ڏينهن ساڻس ضرور ملندس ۽ وڇوڙي جا درد ۽ رولاڪين جا سمورا ٿڪ لهي پوندا۔ اسپتال ۾ انب جي جوس تي ڪجهه گذارو ٿي ويندو هو پر هتي ان درويش جي درگاھ تي پيل مٽن مان مڙئي نڙي آلي ڪندو هيس يا ڪنهن مهل بسڪيٽ جو اڌ کائي وٺندو هيس۔ هڪ اڳئي تمام گهڻو ڪمزور ۽ هلڻ کان لاچار هيس مٿان وري نه سهي خوراڪ پئي واپرايم ۽ نه ڪو پاڻي گلي کان پيو لهي جيڪو لهي پيو اهو الٽي ڪري ڪڍيو پيو ڇڏيان۔ وهنجڻ جي سهولت نه هجڻ جي ڪري ڪپڙا گدلا ٿي چڪا هيا ۽ بدن مان بدبوء پئي ايندي هئي ان رات فيصلو ڪيم ته صبح ڳوٺ ويندس ڪپڙا کڻي واپس موٽي ايندس۔ رات جو آسمان ڏانهن نھاريم ته تارا به منهنجي بيوسيء ۽ حالت زار تي ڄڻ چٿرون ڪري رهيا هجن۔ هر روز جيان سمهڻ کان اڳ محبوب سائين جو خوبصورت ۽ معصوم چھرو ياد ڪري سمهندو هيس ته ننڊ اچي ويندي هئي پر اڄ ته باوجود ڪوشش جي ننڊ به ڄڻ خفا هئي۔ ايئن محبوب سائين کي ياد ڪندي ماضي ڏي هليو ويس جڏهن مون عشق مجاز طرف پهرين وک وڌائي هئي۔ جيئن ته آئون هڪ استاد هيس ۽ منهنجي پوسٽنگ منھنجي ڳوٺ کان اوڀر طرف ڇھ ڪلوميٽر جي مفاصلي تي هڪ ڳوٺ ۾ هئي ۽ ڊيوٽي جو پابند ۽ محنتي به هيس۔ مالي حوالي سان پٺتي هجڻ ڪري گرمين جي موڪلن ۾ ڪا نه ڪا مزدوري ڪندو هيس ۽ اهو 1996ع جو سال هو۔ منهنجي شاديء 12 مارچ تي پنهنجي ماروٽ فاطمه سان ٿي هئي جنهن کي اڃا اڍائي مهينا مس ٿيا هئا۔ جون مهيني ۾ گرمين جي موڪل ٿيڻ شرط قاضي احمد جي مشهور زميندار ۽ ناز باغ جي مالڪ رئيس علي نواز انڙ جي انبن جي باغ تي جيڪو منهنجي هڪ ڳوٺائيء مرحوم جان محمد جوڻو عرف جانڻ مقاطعي ۾ کنيو هو اتي وڃي مزدوريء سان لڳي ويس۔ اڃا ڏھ ڏينهن مس گذريا هئا جو ڳوٺان نياپو آيو ته ڳوٺ جلدي پھچ ناچاڪائي ٿي پئي آهي۔ آئون ڳوٺ پھتس خبر پئي امڙ جي طبيعت خراب ٿي پئي هئي جنهن کي PMC اسپتال نواب شاھ ۾ داخل ڪرايو ويو آهي۔ مون ڪجهه ڪتاب ۽ ڪپڙا کنيا ۽ نواب شاھ پھتس جتي خبر پئي ته امان کي سرجيڪل وارڊ۔3 ۾ داخل ڪيو ويو آهي ۽ کيس پتي ۾ پٿري آهي۔ ايڌي چوڪ نواب شاھ وٽ منهنجي مامي جو گهر هو ۽ ماما سائين UBL BANK ۾ زونل چيف جي عهدي تي ڪم ڪري رهيو هو ان جي گهران بسترا کڻي اسپتال پهتس جتي امڙ جي پيرن تي هٿ رکيم۔ سرجيڪل۔3 وارڊ A۔بلاڪ جي ٻي منزل تي هو جنهن ۾ فيميل سائيڊ بيڊ نمبر 36 امان کي الاٽ ڪيو ويو هو ۽ فيميل وارڊ ۾ مريض توڙي سندن اٽينڊنٽ عورتون ليٽيل هونديون هيون ۽ سندن مٿي تي ڪيڏي مهل پوتي هوندي هئي ته ڪيڏي مهل نه ان ڪري آئون امان وٽ بستري تي ويهڻ مناسب نه سمجهندو هيس ان ڪري داخلي ڏاڪڻين جي سامهون فرش تي رلي وڇائي ويٺو هيس ته وارڊ بواء اچي تعارف پڇيو۔ جڏهن کيس نالو ۽ ذات ٻڌايم ته منهنجي پڦاٽ ادا غلام حسين جو نالو وٺي ان جو پڇيائين۔ کيس ٻڌايم ته غلام حسين منهنجو پڦاٽ آهي، جنهن کان پوء وارڊ بواء ميل ۽ فيميل وارڊ جي وچ تي مون کي ڪرسي رکي ڏني جنهن تي ويهي آئون ڪتاب پڙهندو هيس۔ اها 12 جون، 1996ع جي تاريخ هئي جڏهن آئون ڪرسيء تي ويهيي ڪتاب پڙهي رهيو هوس ته منهنجو ماروٽ منصور امان جي عيادت لاء آيو، امان جي عيادت ڪرڻ کان پوء ٻئي ڄڻا ڪرسين تي ويهي ڪچهري ڪرڻ لڳاسين۔ مون تاريخ اسلام جلد اول مصنف علامه سيد نجم الحسن ڪراروي ڪتاب به پڙهيو پئي ۽ ادا منصور سان ڪچهري به ڪئي پئي پر نظرون ڪتاب طرف هجڻ ڪري آس پاس جي ماحول کان غافل هيس اوچتو منهنجي ماروٽ منصور مون کي ڌڪ هڻندي چيو ته اکيون مٿي ڪري ڪجهه ماحول جو جائزو وٺ هڪ نوجوان ۽ خوبصورت ڇوڪري ڏهن منٽن جي دوران ٽيون ڀيرو هتان گذري آهي ۽ هر وقت تو ڏي نهاريندي ٿي وڃي۔ مون کيس وراڻي ڏني ته يار ڇڏ آئون شريف ماڻهو آهيان ۽ انهن ڳالهين کان پري آهيان۔ منصور چيو هوء ڏس وري اچي پئي۔ مون جڏهن ان طرف نهاريو ته بس نهاريندو رهجي ويس۔ سندس اکين ۾ هڪ عجيب ڪشش هئي جيڪا زبردستي مون کي مسلسل ڏانهس نهارڻ تي مجبور ڪري رهي هئي ۽ هوء به مسلسل مون ڏي نهاري رهي هئي ايسيتائين جو هوء جڏهن اسان وٽان مٽي وئي پوء به بار بار مون ڏي نهاري رهي هئي۔ منصور پڇيو ڇا چڪر آهي؟ ڪو چڪر ڪونهي هوء شايد ڀلي آهي (مون وراڻيو) ڀلي ناهي يار تو ۾ دلچسپي پئي وٺي منصور چيو۔ مون منصور کي چيو اٿي اسپتال واري ڪينٽين تي هلي چانھ پيئون۔ يار دوستي رکينس پيسي ڏوڪڙ جي پرواھ نه ڪر آئون ويٺو آهيان۔منصور اٿندي آفر ڪئي۔ مون چيس يار توکي ته خبر آهي پاڻ ڪاليج ۾ به گڏ پڙهيا آهيون،ڀائر به آهيون ته دوست به آهيون ۽ تون چڱيء طرح ڄاڻين ٿو آئون اهڙو ماڻهو ناهيان۔ اسان ٻنهي هوٽل تي اچي چانھ پيتي ۽ هتان هتان جون ڳالهيون ڪندي منصور موڪلايو۔ ٻي ڏينهن ماما جي گهران ناشتو ڪري امان ۽ ڀيڻ جي لاء چانھ ناشتيو کڻي انهن کي ڏئي آئون ڪرسيء تي اچي ڪتاب پڙھڻ لڳس۔ اوچتو مٿان اچي هڪ عورت اسلام عليڪم چيو۔ آواز ايڏو ته مٺڙو هيو ڄڻ ڪوئل ڪو گيت ڳائيندي هجي۔ وعليڪم السلام چئي ڏانهس نهاريم ته مٿان هوء بيٺي هئي۔ خوش آهيو؟ ان نازنين مون کان پڇا ڪئي جي ها ، مون مختصر جواب ڏنو ۽ محسوس ڪيم ته سندس اکيون سحر انگير آهن اگر انهن ۾ گهڻي دير ڏسندس ته انهن ۾ گم ٿي ويندس ان ڪري ڪتاب کڻي کانئس وڌيڪ ڳالهائڻ جي بجاء اسپتال کان ٻاهر نڪري آيس۔ منهنجي دل زور زور سان ڌڙڪي رهي هئي ۽ زندگي ۾ پهريون ڀيرو مون تي اها ڪيفيت طاري ٿي هئي۔ ٻئي ڏينهن تي صبح جو اٺين بجي معمول مطابق ڪرسيء تي ڪتاب پئي پڙهيم ته هڪ ڀيرو وري ساڳئي آواز مٿان اچي سلام ڪيو۔ اصل ۾ هوء حسينا لڳ ڀڳ سترهن سالن کن جي هڪ نرس هئي جنهن جي هن وارڊ ۾ ڊيوٽي هئي۔ مون وعليڪم االسلام چيو ۽ بغير وڌيڪ ڪجهه ڳالهائڻ جي اتان هليو ويس۔ مجهند جي ماني جي وقت آئون ماما جن جي گهران ماني کائي ،امان ۽ ڀيڻ کي سندس ماني ڏئي ڪرسيء تي اچي ويٺس ته مٿان ساڳي دوشيزه مون وٽ اچي بيٺي ۽ سلام ڪيو۔ مون سلام جو جواب ڏئي اتان وڃڻ جي ڪئي ته هن مون کي روڪي ورتو ۽ سوال ڪيائين۔ دوشيزه: اوهان ڪير آهيو؟ جوڻو مون مختصر جواب ڏنو۔ دوشيزه: منهنجي پڇڻ جو مقصد هي آهي ته ڇا اوهان جي هتي نوڪري آهي؟ جي نه، منهنجي امڙ هتي داخل آهي ان سلسلي ۾ هتي آيل آهيان۔ دوشيزه: ڪهڙي بيڊ تي آ اوهان جي امان؟ جي بيڊ نمبر 36 تي آهي۔مون کيس جواب ڏنو ۽ اتان روانو ٿي هوٽل تي اچي چانھ پيتيم۔ آئون ڪافي پريشان ٿي ويو هيس ته هيء بار بار ڇو ٿي مون سان مخاطب ٿيڻ جي ڪوشش ڪري پر ڪجهه سمجھ ۾ نه پئي آهيو۔ مون کي خوف پئي ٿيو ڇو ته سندس مقناطيسي اکيون مون کي ڏانهس ڇڪي رهيون هيون ۽ هتي منهنجي امڙ ۽ ڀيڻ به موجود هيون سو اتي مون کي اهڙي ڪنهن به ڇڙواڳيء کان پاسو ڪرڻو هيو۔ هونئن به آئون صاف ڪردار جو ۽ شرميلو رهيو هيس۔ چانھ پي آئون امان وٽ پهتس ته منهنجا ڇرڪ نڪري ويا۔ امان بستري تي ليٽيل هئي ۽ اها خوبصورت نرس سندس پيرن کي زور ڏئي رهي هئي۔ آئون حيراني مان اهيو منظر ڏسي رهيو هيس ته سندس نظر مون تي پئي ۽ هوء امان کان موڪلائي رواني ٿي وئي۔ امان هي ڇا هو؟ مون امان کان سوال ڪيو۔ امان: خبر ناهي ابا مون کان اچي پڇيائين ته امان ڪير آهيو؟مون کيس ذات ٻڌائي ته ويهي ڪچهري به ڪرڻ لڳي ۽ زور به ڏيڻ لڳي،لڳي ٿو پنهنجي ماء سان گهڻو پيار هوندس ۽ اها به مون وانگر مڙهي هوندي سو مون کي زور ڏئي امڙ جو آسيس وٺندي هوندي۔ امان کلندي چيو ٻئي ڏينهن صبح جو امان جن کي ناشتو ڏئي ڪرسي تي اچي ويٺس،هوء ڊيوٽي تي اچڻ مهل مون کي سلام ڪري هلي وئي ۽ آئون ڪتاب پڙھڻ لڳس تقريبن سوا ڏھين بجي هڪ پوليس ڪانسٽيبل مون وٽ آيو ۽ اچي پڇيائين ته ڇا اوهان جي هتي ڊيوٽي آهي؟ جي نه منهنجو هتي مريض آهي ان سان گڏ آهيان۔ ڪانسٽيبل: پوء ڪرسيء تان اٿي ته آئون ويهان منهنجي هتي ڊيوٽي آهي۔ آئون ڪرسيء تان اٿي اتي ئي هيٺ فرش تي ويھي رهيس ۽ هو ڪرسيء تي ويهي رهيو۔اهو منظر ان دوشيزه ڏسي ورتو ۽ تيز تيز قدم ڀريندي پوليس واري جي مٿان اچي بيٺي ۽ کانئس جارحانه انداز ۾ پڇا ڪئي ته ڪير آهين تون؟ ڪانسٽيبل : پوليس وارو آهيان۔ نرس:هتي ڇو آيو آهين؟ ڪانسٽيبل: هتي منهنجي ڊيوٽي آهي۔ نرس: ڇا جي ڊيوٽي آهي؟ ڪانسٽيبل: هتي هڪ قيدي مريض داخل آهي ان جي مٿان ڊيوٽي آهي۔ نرس: هن کي سڃاڻين ٿو (مون ڏانهن اشارو ڪندي) ڪانسٽيبل: نه (حيران ٿيندي وراڻيو) نرس نه ڪا ڪئي هم نه ڪا تم ،سندس گريبان مان وٺي کيس رڙ ڪري چيو اٿي ، اٿي مٿي۔ ڪانسٽيبل: ڇا ڳالھ آ ميڊم ؟ وڙهو ڇا پيا؟ نرس: تو هن کي ڪرسيء تان ڇو اٿاريو؟ تنهنجي اها همت ڪيئن ٿي؟ جتي تنهنجو مريض آهي اتي وڃي ويھ اگر تو کي ڪرسي جي ضرورت هئي ته اسٽاف کي چئي ٻي ڪرسي وٺي وٺين ها۔ ڪانسٽيبل مون کي سوري چئي اتان وڃڻ لڳو،آئون به حيران ٿي سڄي ماجرا ڏسي ۽ ٻڌي رهيو هيس ته نرس مون کي مخاطب ٿيندي چيو اوهان ڪرسيء تي ويهو۔ آئون ڪرسيء تي ويهڻ بجاء اتان هليو ويس۔ منهنجو ذهن ماؤف ٿي ويو هو ته هي سڀ ڪجهه ڇا پيو ٿئي ۽ ڇو پيو ٿئي؟ اڃا سوچيم پئي ته رستي ۾ ادا الطاف حسين مليو جنهن ٻڌايو ته اوهان جو دوست ستار مري ڳوٺ آيو هو ۽ اوهان لاء نياپو ڏنو اٿس ته قاضي احمد ۾ ڪرڪيٽ ٽورنامينٽ آهي جيڪو ٽي ڏينهن هلندو۔ مون سوچيو ته امان جي آپريشن ۾ اڃان ڪجهه ڏينهن آهن ڇو ته اڃان ڪافي ٽيسٽون ٿيڻيون هيون ان ڪري امان ۽ ڀيڻ وٽ ادا الطاف حسين کي ڇڏي آئون ڳوٺ هليو ويس۔ ٽن ڏينهن کان پوء شام جو سج لٿي مهل اسپتال پهتس ۔ٻئي ڏينهن صبح جو سوير ماما جي گهران ناشتو ڪري امان ۽ ڀيڻ جو ناشتو کڻي انهن کي ڏنم ۽ ڪتاب کڻي اچي ڪرسيء تي ويٺس۔ ٺيڪ اٺين بجي صبح جو حسين دوشيزه ڊيوٽيء تي آئي ۽ هڪ نظر مون تي وجهي تيز تيز وکون کڻندي نرسنگ روم ڏي هلي وئي پر ٿوري دير ۾ واپس آئي ۽ ماڻهن جي رش هجڻ جي باوجود بغير ڪجهه ڳالهائڻ جي اچي منهنجي هٿ مان ورتائين ۽ ڀر سان موجود مريضن جي ڊريسنگ واري ڪمري ۾ گهلي آئي۔ اتي سمورا ماڻهو اسان ڏي حيرت منجهان ڏسي رهيا هئا،وارڊ بواء به تڪڙو ٿي اچي ڪمري جي کليل دروازي وٽ بيٺو،آئون به پريشان هيس ته هي ڇا ٿي رهيو آهي۔ پر هوء سڀني کان بي نياز مون ڏي غصي مان مسلسل گهوري رهي هئي۔ هن جي جسم ۾ ڏڪڻي محسوس ڪيم ۔ڪجهه دير ايئن ئي گهوريندي آخر هن هڪ عجيب سوال ڪيو۔ نرس: ٽي ڏينهن اوهان ڪٿي هئا؟ سندس چپ ٿڙڪي رهيا هئا ۽ بار بار ڳيتون ڏئي رهي هئي سندس اکين ۾ ڪيڏي مهل ڪاوڙ ته ڪيڏي مھل عاجزي نظر پئي آئي۔ ڳوٺ هيس (مون حيران ٿيندي وراڻيو) نرس: ڇو؟ مون وراڻيو ڪم هو۔ نرس ايڏو ضروري ڪم هو ڇا؟ جي نرس:پوء ٻڌائي به وڃي ٿي سگهيا،اوهان کي خبر آهي ته آئون ڪيڏي پريشان هيس ۽ منهنجو وقت ڪيئن پئي گذريو؟

اهي لفظ چوندي سندس ضبط جا سمورا بند ٽٽي پيا ۽ سندس اکين مان ڊگهي لڙڪن جي قطار نڪري سندس خوبصورت رخسارن کي چمندي سندس سفيد ڊريس ۾ جذب ٿيڻ لڳا۔

اها ڪيفيت وارڊ بواء ڏٺي ته کلندي مصنوعي ڪاوڙ مان چيائين ته بابا ايئن نه ڪندو ڪر ۽ دوستن جو خيال رکندو ڪر۔نرس کي وارڊ بواء جا لفظ ڄڻ ڪنهن ٻيء دنيا مان موٽائي آيا ۽ هن ڇرڪ ڀري وارڊ بواء ڏي نهاريو ۽ ڪمري مان نڪري وئي۔ آئون انتهائي اچرج ۽ حيرانيء جي ڪيفيت ۾ پٿر بنجي گم سم وارڊ بواء ڏي ڏسي رهيو هيس۔وارڊ بواء منهنجي ڪلهي تي هٿ رکي چيو اچ هلون۔ آئون ڪرسيء تي اچي ويٺس پر اتي موجود سمورا ماڻهو مسلسل مون ڏي ڏسي هڪٻئي سان سس پس ڪري کلي رهيا هيا۔ٻه نرسون گذريون جيڪي مونڏي نهاريندي گذريون ۽ مون وٽان مٽي وڃڻ کان پوء ٻنهي جا وڏا ٽهڪ هوا ۾ بلند ٿيا۔ مون ان وقت اتان نڪرڻ کي بهتر سمجهيو ۽ ماما جن جي گهر اچي سمهي پيس۔ اڳئين ڏينهن آئون ماما جن ڏي ماني کڻڻ ويس جڏهن ماني کڻي واپس وارڊ ۾ پهتس ته ڏٺم منهنجي پڦي ، مون کان ننڍي منهنجي ڀيڻ ۽ منهنجي گهر واري فاطمه امان جي عيادت جي لاء پهتل هيون آئون پڦيء ۽ ڀيڻ سان مس مليس ته گهر واري اٿي مون کي هٿ مان ورتو ۽ هڪ پاسي ڇڪي وٺي وئي ۽ سخت چڙ مان پڇيائين اها نرس ڪير آهي ۽ ان سان تنهنجو ڇا معاملو آهي؟ ڪھڙي نرس؟ ۽ ڪهڙو معاملو؟ مون حيرانيء مان کانئس پڇيو۔ مون گهر واريء کان پڇيو ڪهڙو معاملو؟ ڇا ٿيو آهي؟ ڪجهه مونکي ٻڌائيندؤ ته خبر پوي نه ته ڇا معاملو آهي۔ گهر واريء چيو اسان سڀ ماميء وٽ ويٺا هياسين ته هڪ نرس آئي جنهن اچي سلام ڪيو ۽ ماميء کان پڇا ڪئي ته امان هي سڀ اوهان سان ملڻ آيون آهن؟ ماميء کيس چيو ها ڌيء۔ نرس پڇيس امان هي ڪير آهن؟اوهان جون ڇا ٿيون لڳن؟ ماميء بينچ تي منڍ ۾ ويٺل ڀاڄائيء ڏي اشارو ڪندي چيس امان هيء منهنجي ٽيون نمبر ڌيء آهي ،ان کان پوء تنهنجي پڦيء ڏي اشارو ڪندي چيائينس ته هيء منهنجي مڙس جي ڀيڻ آهي ۽ آخر ۾ مون ڏي اشارو ڪندي کيس ٻڌايائين ته هيء منهنجي ننهن آهي۔ ننهن جا لفظ ٻڌي نرس ماميء کان پڇيو امان پٽ گهڻا اٿئي؟ ماميء چيس ٻه پٽ ۽ پنج ڌيئرون اٿم۔ نرس ماميء کان پڇيو هيء ڪهڙي پٽ جي زال اٿو؟ ماميء جيئن چيس ته آصف جيڪو هتي اسپتال ۾ مون سان گڏ آهي ان جي زال آهي۔ اهو ٻڌي نرس تنهنجي ڀيڻ ۽ پڦي کي نه هٿ ڏنو نه کيڪاريو آئون سڀني کان پڇاڙيء ۾ ويٺي هيس سوڙھ مان به جاء ٺاهي مون کي اچي ڀاڪر پاتائين ۽ پيشانيء تي چمي ڏنائين ۽ چمي ڏيڻ وقت مون چڱيء طرح ڏٺو هو ته سندس اکين ۾ ڳوڙها ڀرجي آيا هئا سو ڪا ته ڳالھ آهي۔ مون چيو اهو ته تون ان نرس کان پڇين ها ته ڇا ڳالھ آهي۔ زال مون کي چڙ مان قسم ڏئي پڇيو ته الله جي نالي ٻڌاء ڇا معاملو آهي؟ مون گهر واريء کي سمجهائيندي چيو ته آهستي ڳالهاء ماڻهو ڇا چوندا اهڙي ڪا به ڳالھ ڪانهي وڌيڪ ان بابت گهر ايندس ته ڳالهائينداسين۔ گهر واري ناراض ٿي اچي امان وٽ ويٺي آئون جڏهن امان وٽ پهتس ته امان ۽ منهنجي وڏي ڀيڻ مون ڏي نهاري مرڪڻ لڳيون۔ ٻئي ڏينهن امان جو خير سان آپريشن ٿي ويو آپريشن کان هڪ ڏينهن پوء آئون ڪرسيء تي ويٺو هيس ته وڏي ڀيڻ مون ڏي سڏ ڪندي ڊوڙندي آئي،مون کانس پڇيو ڇا ڳالھ آهي ڀيڻ؟ ڀيڻ پريشان ٿيندي ٻڌايو ته امان کي هڪ نرس جيئن ئي انجيڪشن لڳائي امان جو جسم جهٽڪا کائڻ لڳو آهي۔ مون ڊاڪٽرس روم ڏي ڊوڙ پاتي ۽ ڊاڪٽرس روم ۾ داخل ٿيس۔ مون کي ڊوڙي ايندي ڏسي اها حسين نرس به اچي ڊاڪٽرس روم جي دروازي وٽ بيٺي۔ ڊاڪٽر: ڇا ڳالھ آ بابا؟ سر امان کي انجيڪشن لڳائي وئي آهي جنهن ري ايڪشن ڪيو آهي ۽ سندس جسم تيز جهٽڪا پيو کائي۔ اها ڳالھ ٻڌي هڪ ليڊي ۽ هڪ ميل ڊاڪٽر تڪڙا اٿي هلڻ لڳا پر ان کان اڳ ۾ ئي اها نرس ميڊيڪل ڪٽ کڻي ڊوڙندي امان ڏي رواني ٿي۔ اسان امان وٽ پهٿاسين ته ڏٺوسين امان جو جسم جهٽڪا کائڻ ڇڏي چڪو هو۔ ڊاڪٽر نرس کان پڇا ڪئي ته ڇا ڏنو اٿو امان کي؟ سر ڊيڪاڊرين انجيڪشن لڳائي اٿم۔ ڊاڪٽر :گڊ ڊاڪٽر:امان هاڻي طبيعت ڪيئن آهي؟ امان هيڻي آواز ۾ چيو ابا هاڻي بهتر آ۔ نرس امان کان پڇيو امان اوهان کي انجيڪشن ڪهڙي نرس هنئي هئي۔ اتفاق سان اها نرس به ان مهل اتي پهتي امان ان ڏي اشارو ڪندي چيس هن هنئي هئي۔ اهو ٻڌڻ شرط مون ۾ دلچسپي وٺندڙ نرس ان انجيڪشن هڻڻ واريء نرس کي ڌڪو ڏنو ۽ هوء فرش تي ڪري پئي ڪريل نرس کي ٻيء نرس کڻي وارن مان ورتو ۔ کيس گهليندي چوڻ لڳي ته هل توکي ايم ايس وٽ وٺي هلان،تو امان کي غلط انجيڪشن لڳائي اگر امان کي ڪجهه نقصان پھچي ها ته۔۔۔۔ ليڊي ۽ ميل ڊاڪٽر کيس نرس کي ڇڏڻ جو بار بار چئي رهيا هيا پر هوء مسلسل رڙيون ڪري چئي رهي هئي ته امان کي اگر ڪجهه ٿي پوي ها ته۔۔۔ سمورا مريض ۽ ماڻھو هي تماشو ڏسي رهيا هئا۔ مون همت ڪندي کيس چيو ته ڇڏيو هن کي هي انجيڪشن جو ري ايڪشن هو ان ۾ هن ويچاريء جو ڪھڙو قصور؟ منهنجا لفظ ٻڌڻ شرط هن نرس کي ڇڏي ڏنو ۽ نرسنگ روم ڏي رواني ٿي وئي۔ انجيڪشن هڻڻ واري نرس به روئندي ۽ وار سولا ڪندي رواني ٿي ته ميل ڊاڪٽر فيميل ڊاڪٽر کان بغير ڪجهه ڳالهائڻ جي هٿ جي اشاري سان پڇيو ته هي ڇا پئي ٿيو؟ فيميل ڊاڪٽر وات کي ڪجهه موڙيندي عجيب انداز جي اشاري سان شايد کيس چيو ته خبر ناهي ۽ ٻئي ڊاڪٽر به اتان هليا ويا۔ آئون ڪجهه دير امان وٽ ويهي تسلي ٿيڻ کان پوء (ته امان هاڻي بهتر آهي) اتان اٿي ڪرسيء تي اچي ويٺس پر بار بار ذهن ۾ اڄوڪو واقعو بي چين ڪري رهيو هيو۔ اتي موجود ماڻھو اڪثر مون کي ۽ ان نرس کي ڏسڻ کان پوء ھڪٻئي ڏي نهاري کلي ڏيندا هئا۔ ان واقعي کان پوء اهي ٻئي نرسون سڄو ڏينهن نظر نه آيون۔ البته ٻئي ڏينهن صبح جو اٺين بجي آئون ڪرسيء تي ويٺو هيس ته هوء به وارڊ ۾ داخل ٿي ۽ اچي سلام ڪيائين۔ وعليڪم السلام (مون احترام ۾ کيس اٿي بيهي جواب ڏنو ۽ پڇيو مانس ته خوش آهيو؟) جي آئون ٺيڪ آهيان۔ هن مون کي وراڻيو ۽ وارڊ بواء کي سڏ ڪيو، شبير! جي حڪم سرڪار (وارڊ بواء ويجهو اچي چيو) هوٽل وارو اچي ته ٻه چانھ ۽ بسڪيٽ چوينس۔ نرس وارڊ بواء کي هدايت ڏيندي چيو ۽ مون کي مخاطب ٿيندي چيائين اچو۔ آئون نه چاهيندي به سندس پويان هلي پيس۔ هوء سڌو نرسنگ روم ۾ آئي جتي اڳ ۾ ئي ٻه نرسون موجود هيون۔ آئون نرسنگ روم جي دروازي وٽ بيهي رهيس۔ اچو،اندر اچو (هن مون کي چيو ۽ پاڻ ڪرسي ويجهي رکي ڏني) ويھو (ڪرسيء ڏي اشارو ڪندي چيائين) جيء چئي آئون ڪرسيء تي ويهي رهيس پر مون ۾ جرئت نه پئي ٿي جو آئون هن ڏي نهاريان ان ڪري نظرون جهڪائي ويٺو رهيس۔ نرس: ته اوهان جو نالو آصف آهي۔ جي ها ( مون ڪنڌ مٿي ڪري کيس جواب ڏنو ته باقي ٻن نرسن تي نظر پئي جيڪي مرڪي رهيون هيون پر جڏهن محسوس ڪيائون ته مون کين ڏٺو آهي ته هڪ نرس فائيل پڙھڻ لڳي ۽ ٻي اٿي اندر هلي وئي) جوڻيجا آهيو؟ هن وري ڪنفرم ڪرڻ چاهيو جي جوڻيجو نه پر جوڻو (مون وضاحت ڪندي چيو) اڇا اڇا (هن ڪنڌ لوڏيندي ڄڻ مطمئن ٿيڻ جو جي آگاهي ڏني) ڇا ڪندا آهيو؟ (هن هڪ ڀيرو وري پڇيو) ٽيچر آهيان ( مون وراڻيو) ڪٿي رهندا آهيو؟ (هوء مسلسل سوال ڪري رهي هئي) آئون سندس سوالن جا ايئن نروس ٿي جواب ڏئي رهيو هيس ڄڻ هوء ڪنهن اداري جي آفيسر هجي ۽ آئون هن وٽ نوڪريء جو انٽرويو ڏيڻ آيو هجان) قاضي احمد جي اوڀر طرف ڳوٺ مير محمد جوڻو ۾ رهندو آهيان۔ ڪجهه دير جي لاء هوء خاموش رهڻ بعد مون کي هن پنهنجو نالو ۽ ذات ٻڌائي ۔ (نوٽ آئون هتي سندس نالو ۽ ذات لکڻ مناسب نه ٿو سمجهان پر جيئن ته سندس نالي جي معني سياڻا يا ڏاها آهي ان ڪري هن ڪهاڻيء ۾ آئون سندس نالي جي نڪرندڙ معني سياڻيء سان کيس مخاطب ٿيندس۔) سياڻي: اوهان جي شادي کي گهڻو وقت ٿيو آهي؟ ٽي مھينا (مون وراڻيو) ايتري ۾ هوٽل وارو چانھ کڻي آيو۔ سياڻيء چانھ ڪوپن ۾ وڌي ۽ بسڪيٽ کولي منهنجي اڳيان ٽيبل تي رکيا ۽ چانھ ڏني، اسان گڏجي چانھ پيتي ۽ پوء کائنس اجازت گهري۔ پوء روز اسان جون ايئن مختصر ملاقاتون ٿينديون رهيون ۽ هڪ هفتو اک ڇنڀ ۾ گذري ويو۔ سياڻي هڪ ڏينهن شام جي وقت مون وٽ آئي ۽ چيائين ته سڀاڻي امان کي اسپتال مان ڊسچارج ڪيو ويندو پر آئون سڀاڻي هتي نه اينديس ۽ موڪل ڪنديس۔ ڇو موڪل تي هوندؤ؟ (مون حيرت مان سياڻيء کان پڇا ڪئي۔ اهو ان ڪري جو هتي وارڊ ۾ پنهنجي کلي ڪچهري نه ٿي سگهندي ان ڪري اوهان مون سان نرسنگ هاسٽل تي ملڻ اچجو اتي ڪچهري ڪنداسين۔ مون ساڻس نرسنگ هاسٽل تي ملڻ جو واعدو ڪيو۔ ٻئي ڏينهن سياڻي ڊيوٽيء تي ڪانه آئي ۽ اسان کي مجهند جو اسپتال مان موڪل ملي ۽ هفتي کان پوء ٽاڪا کولرائڻ جي لاء وري اچڻ جو چيو ويو۔ آئون امان کي وٺي نرسنگ هاسٽل تي پهتاسين جتي چوڪيدار کي ٻڌايوسين ته اسان سياڻيء جا مھمان آهيون۔ چوڪيدار سياڻيء تائين نياپو پهچايو ،ڪجهه دير ۾ هوء ڊڪندي اسان وٽ پھتي ۽ اسان کي نرسنگ هاسٽل جي مھمان خاني ۾ هلڻ جو چيائين پر امان هلڻ کان انڪار ڪيو ۽ سياڻيء کي چيائين ته ڌيء تو اسان جو تمام گهڻو خيال رکيو ۽ منهنجي خدمت ڪئي ان ڪري توکي مھرباني چوڻ ۽ توسان ملڻ آياسين۔ سياڻيء امان کي چيو امان جڏهن به نواب شاھ اچو مون سان لازمي ملڻ ايندا ڪجو ۽ مھرباني نه چؤ ماء جي اگر ڌيء خدمت ڪندي آهي ته اهو ڌيء تي فرض هوندو آهي۔ امان ساڻس ڀاڪر ڀائي موڪلايو ۽ اسان روانا ٿي وياسين۔ امان کي ايڌي سينٽر وٽ ماما جن جي گهر وٺي آيس جتي ادا منصور مليو جنهن کي وٺي ڇت تي ويس ۽ کانئس صلاح ورتيم ته سياڻيء کي گفٽ ڪھڙو ڏيان؟ ادا منصور صلاح ڏني ته تون مسجد روڊ تي انبالا بيڪري اٿئي اتان هڪ سٺو ڪيڪ وٺي اچ باقي ٻئي گفٽ کان تون بيفڪر رھ ،مون پنهنجي هڪ دوست جي لاء نهايت عمديون چوڙيون ۽ ڪنگڻ ورتا هئا اهي تون سياڻيء کي ڏي آئون پوء خريد ڪري وٺندس۔ آئون ڊوڙي انبالا بيڪري تي پهتس جتان هڪ ڪيڪ ورتم ۽ گهر اچي ادا منصور کان چوڙيون جيڪي گفٽ پيڪ هيون سي کڻي نرسنگ هاسٽل پهتس ته سياڻي اڳ ئي بيٺي هئي۔ مون کيس سلام ڪيو ته سياڻيء چيو مون کي خبر هئي ته اوهان ضرور ايندؤ،مون پاڻ اوهان جو انتظار پئي ڪيو۔ هوء مون کي مهمان خاني ۾ وٺي وئي جتي پندرهن منٽ ويهي هيڏي هوڏي جون ڳالهيون ڪيون سين ۔ آخر گفٽ سندس حوالي ڪري مون کانئس موڪلايو۔ موڪلائڻ وقت ڏکاري ۽ التجا آميز لهجي ۾ سياڻي چيو ته مون سان ملڻ ايندا رهجو۔ مون ساڻس ڏي اچڻ جو واعدو ڪيو ۽ روانو ٿي ويس۔ ماما جن جي گهر پهچي انهن کان به موڪلايوسين ۽ ڳوٺ روانا ٿي وياسين۔ اوچتو منهنجي طبيعت خراب ٿيڻ لڳي ۽ هانء ڪچو ٿيڻ لڳو جنهن ڪري يادن جي دنيا مان موٽ کاڌيم ۽ پنهنجو پاڻ کي محبوب سائين جي شهر ۾ ان درويش جي مزار وٽ ڏٺم۔ منهنجو سمورو جسم پگهر ۾ شرابور ٿيل هو ۽ ڪپڙن،جسم مان ايندڙ بدبوء تنگ پئي ڪيو۔ٿوري دير ۾ الٽي آئي جنهن کان پوء وڌيڪ ڪمزوري محسوس ڪيم،اڃا اڌ رات مس گذري هئي۔ مون کي ساھ کڻڻ ۾ تڪليف محسوس پئي ٿي جنهن ڪري درگاھ جي ڀت کي ٽيڪ ڏئي وڏا وڏا ساھ کڻڻ لڳس۔ ڪجهه دير کان پوء فرش تي ليٽي آسمان ڏانهن تارن کي تڪڻ لڳس۔ مونکي SIUT ڪراچي مان ڪينسر جو علاج اڌ ۾ ڇڏي آئي اڄ پنجين رات هئي۔ آئون هڪ ڀيرو ٻيهر ماضيء جي جهروڪن ۾ موٽي ويس ۽ يادن جو سلسلو اتان جوڙيم جتي اهو ٽٽو هيو۔ مون کي چڱيء طرح ياد هو ته جڏهن امان کي اسپتال مان وٺي ڳوٺ پهتو هيس ته گهر ۾ پاڙي جي عورتن ۽ ٻارن جي رش لڳي وئي جيڪي امان جي عيادت جي لاء پهتا هئا۔ آئون گهر کان ٻاهر نڪري آيس۔ مون سوچيو هو ته سياڻيء جي لاء منهنجي دل ۾ فقط عزت هئي باقي ڪي خاص اموشنس نه هيا پر شايد آئون غلط هيس۔ کانئس وڇڙي ڳوٺ اچڻ کان پوء سندس ياد بي چين ڪرڻ لڳي۔ وري وري ذهن کي جهٽڪا ڏئي سندس ياد کان جان ڇڏائڻ جي ڪوشش ڪيم پر هوء منهنجي دل ۽ دماغ ۽ حواسن تي قابض ٿي چڪي هئي۔ ڳوٺ ۾ ڪٿي به سڪون نه پيو اچي۔ هر نئون پل سندس نئين ياد کڻي مون کي تڙپائي ۽ بي چين و بيقرار ڪري رهيو هيو۔ کيس جڏهن پهريون ڀيرو ڏٺو هيم اهو منظر،سندس ڪوئل جهڙي مٺڙي آواز جون صدائون هر هر ذهن ۾ گونجڻ لڳن پيون۔ پوليس واري کي سندس گريبان ۾ هٿ ،مريضن جي ڊريسنگ واري ڪمري ۾ سندس هرڻيء جهڙين خوبصورت اکين ۾ آيل لڙڪ،نرس کي وارڻ مان وٺڻ وارو منظر،نرسنگ هاسٽل تي ڪري آيل ملاقات جو دلربا منظر،هي سڀ سين منهنجي دماغ جي اسڪرين تي مسلسل رپيٽ ٿي رهيا هيا۔ دل چوي پئي ته هينئر ئي وڃان ۽ سندس حسن جا جلوه پسيان۔ آخر مون کان برداشت نه ٿيو ۽ سمجهيم ته هاڻي روئي ڏيندس سو ماڻهن کان پري اڪيلائيء واري جاء تي وڃڻ بهتر سمجهيم ۽ ڳوٺ جي ويجهو ئي اباڻي قبرستان ڏي ڊوڙ پاتيم جيڪو قديمي ۽۽ شايد چئن پنجن اٺاسن جي وسعت ۾ آهي اتي اچي هڪ پراڻي کٻڙ هيٺان ويٺس ۽ محسوس ڪيم ته خدا کان سواء مونکي ڏسڻ وارو ڪير به ناهي۔ بس اتي ضبط جا بند ٽٽي پيا اکين خوب ملهاريون وسايون تقريبن عشاء جي نماز تائين زارو قطار روئندو رهيس ان کان پوء به دل تي بوجهه محسوس پئي ڪيم پر جيئن ته امان کي دوا کارائڻي هئي ان ڪري ڳوٺ روانو ٿيس۔ استاد محمد عمر جوڻو جي اوطاق تي نلڪي تان هٿ منهن ڌوئي گهر آيس ۽ امان کي دوا کارائي گهر واريء کي دوا جا وقت ۽ دوا سمجهائي اڳتي لاء اها زميواري سندس حوالي ڪيم۔ گهر واري ماني کڻي آئي پر ماني ڪٿي پئي وڻي سو ڪانه کاڌيم ۽ اچي بستري تي سمهي رهيس۔ ڪافي دير کان پوء گهر واري آئي جنهن پڇيو ته ڇا ڳالھ آهي طبيعت ته ٺيڪ آهي نه اوهان جي؟ آئون ڪجهه ڳالهائي نه سگهيس ۽ روئي ڏنم۔ گهر واريء پهريائين سمجهائڻ جي ڪوشش ڪئي پي کيس اندازو ٿي چڪو هو ته همراھ آخر انهن قاتل اکين کان ڪسي آيو آهي سو پاڻ به مون کي ڀاڪر پائي روئڻ لڳي ۽ مون کي ناڪام تسلي ڏيڻ جي ڪوشش ڪرڻ لڳي۔ اها سڄي رات روئندي ۽ سڄڻ کي ياد ڪندي عبادت ۾ گذاريم۔ ٻئي ڏينهن صبح جو سوير آئون نواب شاھ جي لاء نڪري پيس۔ نواب شاھ ماما جن جي گهر اچي ناشتو ڪيم ۽ سياڻيء ڏي هڪ مختصر خط لکڻ ويٺس جنهن ۾ مون هن کان سندس اباڻي ڳوٺ جي ائڊريس،سندن گهر ۽ اسپتال جي وارڊ جو فون نمبر ڏيڻ جي گهر ڪئي هئي۔ خط لکي آئون وارڊ ۾ پهتس پر اتان خبر پئي ته اڄ ڊيوٽيء تان موڪل ڪئي اٿس،ان کان پوء نرسنگ هاسٽل تي اچي چوڪيدار سان مليس جنهن پڇيو ڪنهن سان ملڻو آهي؟ مون چيس مون کي سياڻيء سان ملڻو آهي۔ چوڪيدار مون کي اتي انتظار ڪرڻ جو چيو ۽ پاڻ هاسٽل ۾ اندر هليو ويو۔ ڪجهه منٽن کان پوء سياڻيء کي تڪڙو تڪڙو ايندي ڏٺم۔ هن مون کي اچي سلام ڪيو ۽ مون کان منهنجي ۽ امان جي خير و عافيت پڇي۔ سياڻيء پڇيو ته ماما وارن وٽ آيا آهيو ڇا؟ مون کيس چيو اوهان سان ملڻ لاء آيو آهيان۔ سياڻيء مهمان خاني هلڻ جو چيو پر صبح جو وقت هو ۽ وڏي رش هئي ان ڪري مون مهمان خاني کان انڪار ڪري کيس چيو بس اوهان کي ڏٺم ۽ اوهان سان مليس مون لاء اهو ڪافي آهي،فلحال آئون وڃان ٿو هي خط وٺو آئون اڌ ڪلاڪ کان پوء ايندس مون کي ان خط جو جواب ڏيڻ جي عنايت ڪجو۔ سياڻيء مرڪندي چيو اوهان ڀلي اچجو اوهان جو انتظار ڪنديس ۽ خط جو به ضرور جواب ڏينديس۔ آئون کانئس موڪلائي ماما جن جي گهر آيس جتي ٻڌايائون ته پروفيسر عزيز احمد جوڻو جو والد صاحب سليمان جوڻو وفات ڪري ويو آهي سو جلدي ڳوٺ پهچو۔ اڃا انهن ڳالهين ۾ هياسين ته ڪار به اچي وئي ۽ سياڻيء سان ملڻ ۽ خط جو جواب وٺڻ کان سواء ڳوٺ موٽي آياسين۔ اهو سڄو هفتو نواب شاھ وڃڻ جو موقعو نه مليو جنهن ڪري هر وقت بي چين رهندو هيس۔ سياڻي هڪ پل به ذهن مان نه پئي نڪتي سندس حسين چهرو هر وقت اکين اڳيان ڦرندو رهندو هو ۽ سڄي هفتي دوران اڪثر ڳوٺ جي قبرستان ۾ وڃي زاروقطار روئندو رهندو هيس ۽ رات جو دير سان گهر واپسي ٿيندي هئي۔ ڏکيو سکيو هفتو پورو ٿيو ۽ امان جي زخمن جا ٽاڪا کولرائڻ نواب شاھ پهتاسين۔ اتان فارغ ٿي وارڊ ۾ سياڻيء جي پڇا ڪرائي سين خبر پئي اڄ موڪل تي آهي جنهنڪري ساڻس ملڻ نرسنگ هاسٽل تي پڳاسين ۽ چوڪيدار کي چيوسين ته سياڻيء سان ملڻو آهي۔ مجهند جو وقت هيو تقريبن پندرهن کن نرسون ميس ۾ ماني کائڻ پئي ويون چوڪيدار انهن کي چيو ته سياڻيء کي ٻڌائجو ته سندس مهمان آيا آهن۔ ڏھ منٽ کان پوء هوء آئي ساڻس پنج اٺ ٻيون به نرسون گڏ هيون پر سندس چهري تي پريشاني صاف نظر پئي آئي۔ امان سان ڀاڪر پائي ملي ۽ مهمان خاني هلڻ جو چيائين۔ امان پڇيس ڇا ڳالھ آهي ڌيء چھرو لٿل اٿئي ۽ پريشان ٿي لڳين؟ سياڻي چيو ڪجهه ناهي امان ٿوري طبيعت خراب آهي۔ امان کيس چيو ته ڌيء تون آرام ڪر ڀلي اسين ٻيهر ڪڏهن اينداسين،تون پنهنجي ڳوٺ جي ائڊريس ۽ فون نمبر لکي ڏي۔ سياڻي: امان اهي نٿي ڏئي سگهان اڄ جا ماڻهو تمام خراب آهن آئون کانئن ڊڄان ٿي۔ اهي لفظ ٻڌي منهنجي پيرن جي هيٺان زمين نڪري وئي ۽ دل ۾ ڄڻ زلزلي جا لوڏا محسوس ڪرڻ لڳس۔ آئون حيران هيس ته هفتي جي اندر سندس خيال ايڏا ڪيئن ۽ ڇو مٽجي ويا؟ انهن ڪجهه ڏينهن ۾ آخر اها ڪهڙي قيامت ڪڙڪي جنهن سندس دل ۾ منهنجي لاء خوشحال ۽ آباد پيار جي دنيا کي تھس نھس ڪري ڇڏيو؟ مون خط ۾ فقط اها ئي ته گهر ڪئي هئي ته پنهنجي ڳوٺ جي ائڊريس ۽ فون نمبر ڏجو،آخر منهنجي ان گهر مان منهنجا ڪهڙا خطرناڪ ارادا محسوس ڪيائين جو هوء چوڻ تي مجبور ٿي پئي ته ماڻهو ڏاڍا خراب آهن ۽ آئون کانئن ڊڄان ٿي؟ آخر سياڻيء کي منهنجي ڪهڙي خرابي نظر آئي ۽ هن کي مون مجهان ڪهڙو خوف هو؟ ڪجهه به سمجهه ۾ نه پئي آيو،سندس اهڙو غير متوقع جواب ٻڌي امان جي هٿ مان وٺي کانئس موڪلائڻ بغير امان کي چيم امان اچ هلون ۽ پوء اسان روانا ٿي وياسين۔ ڳوٺ پھچي امان کي گهر ڇڏيم ۽ پاڻ ڳوٺ جو قبرستان اچي وسايم جتي سڄو ڏينهن زارو قطار روئندو رهيس۔ رات ٿيڻ تي گهر آيس،گهر واريء ماني آڻي ڏني پر مون کي مانيء جي ضرورت ٿورئي هئي؟ مون ته چاهيو پئي ته سياڻيء جي يادن ۾ گم هجان ،اڪيلو هجان جيئن ڪير ٻيو منهنجي ۽ سياڻيء جي يادن جي وچ ۾ خلل وجهڻ وارو نه هجي ۽ قيامت اچي وڃي۔ اهو منهنجي هوش ۾ رهڻ جو آخري ڏينهن هو ۽ مون ايئن محسوس پئي ڪيو ته هاڻي آئون آصف ناهيان رهيو بلڪه هاڻي منهنجي وجود ۾ سياڻي اچي ديرو ڄمايو آهي۔ اهو منهنجو آخري ڏينهن هو جو آئون پنهنجو،گهر وارن جو خيال رکندو هيس،هاڻي مون کي هوش نه رهيو ته منهنجو هڪ گهر آهي ، هڪ شفيق جيجل امڙ آهي جيڪا مون سان بي انتها محبت ڪري ٿي،هاڻي مون کي اهو به هوش نه رهيو ته منهنجي هڪ گهر واري به آهي جيڪا وفادار،پيار ڪندڙ ۽ منهنجي بهترين دوست آهي۔ مون کي اهيو به هوش نه رهيو ته ڀينرن ۽ ڀاء جي ذميواري ۽ پيرسن پيء جي خدمت منهنجي ذميوارين ۾ شامل آهي۔ آئون هڪ ڀيرو ٻيھر گهران نڪري ڳوٺ واري قبرستان ۾ اچي ويٺس ۽ سڄي رات ديوانن ۽ مجذوبن جيان اوڇنگارون ڏئي روڏندو رهيس،سياڻيء کي سڏ ڪندو رهيس۔ ان رات شايد قبرن ۾ ستل مردن جي ابدي ننڊ ۾ خلل پيو هوندو ۽ سمجهيو هوندائون ته شايد قيامت جو ڏينهن اچي ويو آهي ۽ منهنجون دانهون ۽ ڪوڪون شايد کين اسرافيل جي سور جيان محسوس ٿيون هجن،پر ايئن نه هو اها قيامت صرف منهنجي لاء هئي۔ سڄي رات جي آه و بقا کان پوء صبح هلڪو هلڪو سوجهرو ٿيو ته مون گهر واپسي ڪئي۔ صبح جو چانھ پي نواب شاھ پهتس۔ همت نه پئي ٿي ته وارڊ ۾ وڃان سو نرسنگ هاسٽل جي اڳيان c بلاڪ جي ڀر سان اچي فرش تي ويهي رهيس۔ منهنجون ديدون سياڻيء جي هڪ جهلڪ ڏسڻ جي لاء مسلسل چئين بجي تائين واجهائينديون رهيون۔ آخر چئين بجي شام جو شفٽ چينج ٿيڻ جو ٽائيم ٿيو ۽ اميد پيدا ٿي ته هاڻي سياڻي نرسنگ هاسٽل ڏي واپس ورندي اهو سوچي آئون نرسنگ هاسٽل جي سامهون روڊ جي ڪناري وٽ اچي بيهي رهيس۔ ڪجهه دير کان پوء نرسن جي ولر ۾ اها منهنجي دل جي ملڪه ، منهنجي خوابن جي شهزادي ۽ منهنجي چين و قرار جي قاتل نمودار ٿي۔ جڏهن بلڪل منهنجي سامهون روڊ جي ٻئي ڪناري تي پهتي ته سندس مون تي نظر پئي ۽ ڄڻ بي اختيار سندس قدم بيهي رهيا۔ هوء مون ڏي ۽ آئون هن ڏي نهاريندو رهيس ، ٻئي هڪٻئي ڏي ڏسندي ڄڻ پٿر جا بت بنجي ويا هئاسين خبر ناهي ڪيتري دير هڪٻئي ڏي دنيا جهان کان بي نياز ٿي نهاريندا ۽ هڪ ٻئي جي اڃايل اکين جي اڃ لاهيندا رهياسين ۔ منهنجي اندازي ۾ اڌ ڪلاڪ کان مٿي ٽائيم گذري ويو هو،اسان ٻنهي کي هوش تڏهن آيو جڏهن ( هو ڏسو ليلا مجنون جي جوڙي ) جا آواز ڪنن تي پيا۔ ڏٺوسين ته نرسنگ هاسٽل جي مٿين ٽنهي منزلن جي گيلرين ۽ هاسٽل جي گيٽ وٽ پنجاھ کان مٿي نرسون اسان جي بي نياز محبت جو تماشو ڏسي رهيون هيون،جملن جا تير اسان جي سماعتن ڏي اڇلي سيٽيون وڄائي ۽ تاڙيون هڻي اسان جي پاڪ محبت جو مذاق اڏائي رهيون هيون۔ سندن آوازن تي سياڻي ڏانهن نهاريو ۽ مون کان نظرون ڦيري هاسٽل اندر هلي وئي۔ منهنجو خيال هو ته جيڪو دنيا وارن اڄ اسان جو تماشو بنايو آهي ان کان پوء هوء ڪمري ۾ وڃي پاڻ کي بند ڪندي پر هن ايئن نه ڪيو،سامهون هاسٽل جي آخري منزل جي گيلري ۾ اچي بيهي رهي ۽ مون ڏي نهاريندي رهي۔ڇتين گرمين ۾ سندس سامهون سج جي تيز اس ۾ سڄي پگهر ۾ شرابور ٿي وئي پر هڪ پل لاء به نه هٽي ۽ سج لٿي تائين منهنجي دل کي پنهنجي حسن جي تجلين جي ذريعي منور ڪندي رهي۔ اها رات مون اتي ئي فوٽ پاٿ تي لڇندي گذاري ۽ ٻئي ڏينهن وري شام ٿيڻ جو انتظار ڪرڻ لڳس۔ هاڻي مون کي اهو بلڪل به هوش ناهي ته آئون ڪير آهيان ۽ ڪٿي آهيان بس ايتري خبر هئي ته آئون پاڻ وڃائي ويٺو آهيان اهو هتي ئي لڀندس۔ شام جو چار بجي وري اٿي ساڳي جاء تي اچي بيٺس ،چند منٽن جي انتظار کان پوء هن کي نرسن جي ولر سان گڏ ايندي ڏٺم پر ھوء سونهن ۾ سڀني کان سرس هئي۔ منهنجي سامهون اچي ڪالھ وانگر وري روڊ جي ڪناري تي بيهي مونڏي نهارڻ لڳي،هڪ ٻن نرسن کيس هلڻ جو چيو پر هوء نه وئي ۽ اسان هڪٻئي ڏي ڏسندا رهياسين۔ اسان هڪ گفتو به هڪٻئي سان نه پئي ڳالهايو پر اکين سڀ ڪجهه ڳالهايو پئي۔ ڏھ منٽ کن روڊ تي بيهڻ کان پوء وري آواز شروع ٿي ويا۔ ( اي لوگو آؤ اور ليلي مجنون ڪي جوڙي ديکهو) وري سيٽيون وڄڻ لڳيون۔ ڪجهه شرارتي نرسن فلمي گاني ڳائڻ شروع ڪيا۔ آخر سياڻي هاسٽل ڏي هلي وئي پر ڪجهه ئي گهڙين کان پوء گيلري ۾ اس ۾ اچي بيهي رهي ۽ اکين جي اڃ لاهيندي ٻيو سج لهي ويو۔ بقايا سڄي رات هاسٽل جي گيلري ۾ اکيون ٽڪيون رهيون ته من سياڻي اٿي اچي پر هوء نه آئي ۽ جاڳندي ٻي رات به گذري وئي۔ صبح جو پوڻين اٺين بجي هوء هاسٽل مان نڪتي ۽ مون تي نظر پوڻ شرط بيهي رهي، ڪجهه دير بيهڻ کان پوء هوء ڊيوٽيء تي هلي وئي ۽ آئون به اٿي اسپتال واري هوٽل تي آيس جتي ٻن ڏينهن کان پوء ناشتو ڪيم ۽ وري هاسٽل جي سامهون فٽ پاٿ تي اچي ويهي رهيس۔ تقريبن يارهين بجي ڌاري ورديء ۾ ٻه سپاهي آيا ۽ مون کي اچي ٻانهن مان ورتائون ۽ اسپتال واري گهاٽ يعني چوڪيء تي وٺي آيا۔ هڪ سپاهيء سوال ڪيو نالو ڇا اٿئي؟ آصف جوڻو (مون وراڻيو) مون کانئن پڇا ڪئي ته مون کي ڇو وٺي آيا آهيو؟ سپاهي: نرسنگ هاسٽل جي انچارج تنهنجي شڪايت ڪئي آهي ته تون نرسن کي تنگ ٿو ڪرين۔ پر مون ته ڪنهن کي به تنگ ناهي ڪيو،اگر جنهنکي تنگ ڪيو اٿم اهو سامهون چوي ته پوء جيئن اوهان کي بهتر لڳي ايئن ڪيو۔ ٻئي سپاهيء چيو نشو ڪهڙو ڪندو آهين؟ سگريٽ کان سواء ڪو به ٻيو نشو ناهيان ڪندو (مون وراڻيو) سپاهي: پوء اکيون ڳاڙهيون رت ڇو اٿئي؟ ٻن راتين جو اوجاڳو آهي (مون وراڻيو) سپاهي: ڇا ڪندو آهين؟ استاد آهيان۔ سپاهي:سائين پوء استاد ٿي ڪري اوهان هي ڪهڙيون حرڪتون پيا ڪيو؟ آئون خاموش رهيس۔ سپاهي: اڇا پوء اسپتال ۾ ڇا پيو ڪرين؟ آئون وري به خاموش رهيس۔ هڪ سپاهيء ٻئي سپاهيء کي چانھ وٺي اچڻ جو چيو۔ جڏهن هڪ سپاهي هليو ويو ته ٻئي سپاهيء چيو هاڻي حال احوال ٻڌايو ڇا معاملو آهي؟ مون سپاهيء کي چيو اڳ ۾ اوهان ٻڌايو ته شڪايت ڪنهن ڪئي آهي؟ اگر آئون جنهن جي لاء هتي اچان ٿو اوهان ان جو نالو کنيو ته شڪايت جائز سمجهندس پوء جيئن اوهان کي مناسب لڳي ايئن ڪيو باقي اگر ڪنهن ٻئي شڪايت ڪئي آهي ته سچ ٿو چوان مون ڪنهن کي به تنگ ناهي ڪيو۔ سپاهي هاسٽل انچارج جو نالو ورتو بلڪل غلط الزام آهي مون تي ان جو( مون وراڻيو) سپاهي : اڇا اوهان هتي ڪنهن سان ملڻ ايندا آهيو؟ ملڻ نه صرف کيس پري کان ڏسڻ ايندو آهيان۔ سپاهي : ان جو نالو ڇا آهي؟ نالو ڪونه ٻڌائيندس (مون وراڻيو) سپاهي: ڪٿي ان ته شڪايت نه ڪئي آهي؟ ڪرڻ ته نه کپيس (سوچيندي چيم)۔ سپاهي: ڇو شڪايت نه ڪرڻ گهرجيس؟ بس منهجي دل ٿي چوي (مون پر اعتماد لهجي ۾ چيو) سپاهي:ڇا هوء تو سان محبت ڪري ٿي؟ خبر ناهي (وراڻيم ) سپاهي : ڪيئن خبر پوندي؟ آئون اگر توکي ڪجهه ڏيکاريان ان مان تون ئي نتيجو ڪڍي پوء فيصلو ڪجان۔(مون سپاهيء کي آفر ڪئي) مون سپاهيء کي پلان بابت مختصر سمجهايو هن ڪجهه سوچڻ کان پوء چيو ٺيڪ آهي ڏسون ڇا ٿو ڏيکارڻ چاهين۔ شام جو ساڍين ٽين بجي هن منهنجي چوڻ تي سادا ڪپڙا پاتا ۽ ٻئي ڄڻا نرسنگ هاسٽل جي سامهون پهتاسين۔ مون کيس چيو تون OPD واري پاسي مسجد وٽ بيھ آ ئون توکي اشارو ڪيان ته پوء اچجان۔ سپاهيء چيو ٺيڪ آهي ۽ هو مسجد واري پاسي هليو ويو ۽ آئون نرسنگ هاسٽل جي سامهون فٽ پاٿ تي ويهي رهيس۔ سوا چار بجي سياڻي ء کي نرسن سان گڏ هاسٽل ڏي ايندي ڏٺم ته سپاهيء کي اشارو ڪيم۔ اشارو ڏسي سپاهي به اچڻ لڳو۔ هاسٽل جي سامهون ايندي ئي سياڻي روڊ تي بيهي مون ڏي نهارڻ لڳي ۽ آئون هن ڏي۔ روز جيان دنيا کان غافل هڪٻئي ۾ گم ٿي وياسين۔ هاسٽل جي گيلرين تي بيٺل نرسون سيٽيون وڄائڻ،گانا ڳائڻ ۽ زور زور سان ٽھڪ ڏيئي هر ايندڙ ويندڙ کي اسان ڏي اشارو ڪري ڏسڻ جي دعوت ڏيئي رهيون هيون ۽ وڏي آواز سان رڙيون ڪري چئي رهيون هيون ته

(هوء ڏسو ليلا مجنون جي جوڙي)
(هوء ڏسو شيرين فرهاد جو عشق )

اسان ٻئي زماني جي انهن فقرن،سيٽين ۽ ٽھڪن کان بي نيار ٿي اڌ ڪلاڪ تائين هڪٻئي جي سڪ لاهيندا رهياسين۔ آخر سياڻي هاسٽل ڏي وئي ته سپاهيء مون کي به اچي هٿ مان ورتو ۽ چيو ته آئون سڀ ڪجهه سمجهي ويس،اوهان بيقصور آهيو اچو هلون۔ مون کيس چيو اوهان وڃو مون کي اڃا ديدار ڪرڻو آهي۔ سپاهي : هوء وڃي چڪي آهي۔ هوء پنجن منٽن جي اندر مٿي گيلريء ۾ اچي بيهندي اهو چئي آئون فٽ پاٿ تي اچي ويهي رهيس۔ سپاهي به ڪجهه مفاصلي تي ويهي رهيو۔ ٻن منٽن کان پوء سياڻي گيلريء ۾ اچي بيٺي ۽ سج لٿي تائين مسلسل سخت گرميء ۽ اس ۾ بيهي محبت جي ڪائنات جو سير ڪندي رهي۔ سج لٿي مهل هوء جڏهن هلي هئي ته سپاهي مون وٽ آيو ۽ پيرن تي هٿ رکي مون کان معافي ورتائين ۽ پنهنجو تعارف ڪرائيندي چيائين استاد محترم! منهنجو نالو مسڪين ۽ ذات اڄڻ آهي اصل ٺارو شاھ جو آهيان هتي ڪير به تنهنجو هاڻي نالو نه وٺندو،تون بيفڪر رھ آئون تو سان گڏ آهيان۔ مون سپاهيء جا ٿورا مڃيا ۽ کانئس ڀاڪر پائي موڪلايو ۽ ڳوٺ روانو ٿي ويس۔ ٽن ڏينهن جي ديدار کان پوء دل جو درد ڪجهه حد تائين گهٽ ٿيو هو ۽ ٻن راتين جو اوجاڳو به هو ان ڪري ننڊ پئي آئي سو اچي بستري تي سمهي پيس۔ ڪجهه دير کان پوء گهر واري ماني کڻي آئي ، مون مانيء جا ٻه گرھ هنيا ۽ سمهي رهيس۔ گهر واري ٿانو ڇڏي آئي ۽ مون کان اچي پڇيائين ٽي راتيون ڪٿي هئا ۽ ڪھڙا حال ڪيا اٿو؟ آئون روئي پيس ۽ روئندي کيس وراڻيم ته تنهنجو آصف توسان بيوفائي ڪري ڪنهن ٻئي جي عشق ۾ مبتلا ٿي ويو آهي ان محبوب جي ديدار جي لاء ويو هيس۔ آئون سمجهي سگهان ٿو ته ان مهل منهنجي گهر واريء جي دل تي ڪهڙي قيامت ڪڙڪي هوندي پر هوء وفادار،بردبار ۽ مونسان بيحد محبت ڪندڙ منهنجي دوست هئي سو مون کي ڀاڪر ۾ ڀري مون سان گڏ روئڻ ۾ شريڪ ٿي وئي۔ ان ڏينهن کان پوء جڏهن به خرچ پکو هوندو هو ته نواب شاھ هليو ويندو هيس ۽ نرسنگ هاسٽل جي سامهون ويهي ان ماهتاب مکڙي جي جهلڪ ڏسڻ جي لاء تڙپندو رهندو هيس ۽ جڏهن ڳوٺ هوندو هيس ته ماڻھن کان وحشت ٿيندي هئي۔ بس پوء پنهنجي ڳوٺ واري قبرستان ۾ ماما عبدالواحد عرف ڏاڏو جي قبر کي سيراندي ڪري راتين جون راتيون اتي گذارڻ لڳس ڇو ته اتي سياڻيء جي يادن ۾ خلل وجهڻ وارو ڪير به نه هو۔ ڇو ته اتي مون کي دانهون ڪري روئندي ۽ تڙپندي ڏسي ٽوڪ مان کلڻ وارو ڪير به ڪونه هو۔ ڇو ته اتي روئي روئي هيجان جي ڪيفيت ۾ سياڻيء کي سڏ ڪرڻ دوران ڪير به اهو چئي ٽوڪڻ وارو ڪونه هو ته تنهنجي سياڻي هتي ڪانه ايندي۔ اهڙيء طرح ڪجهه مهينا ان حالت ۾ گذري ويا۔ 27 رمضان تي آئون اسپتال پهتس ۽ سڄو ڏينهن انتظار ڪندو رهيس پر سياڻي نظر نه آئي۔ شام جو هاسٽل جي چوڪيدار اچي ٻڌايو ته سياڻي هميشه جي لاء نوڪري ڇڏي ڳوٺ هلي وئي آهي. چوڪيدار جا اهي لفظ ڄڻ لفظ نه بلڪه ايٽم بم هئا جن منهنجي وجود کي ٽڪرا ٽڪرا ڪري ڀڃي ڀوري ڇڏيو هو، جان مان ساھ ڇڏائي ويو هو ۽ بي ست ٿي مٿي تي هٿ ڏئي زارو زار روئڻ لڳس۔ڪافي دير ان ڪيفيت ۾ رهڻ کان پوء اٿيس ۽ پنهنجي ٽٽل وجود کي ڄڻ گهليندي اتان روانو ٿي ڳوٺ پهتس۔ گهر وڃڻ جي بجاء قبرستان وڃي وسايم ۔ اها پهرين عيد هئي جنهن تي مون نه ڪپڙا مٽيا نه نماز پڙهي ۽ عيد بستري ۾ سمهي گذاريم جنهن ڪري سڄي گهر نه ڪپڙا مٽيا نه وري ڪا خوشي ڪيائون۔

پنهنجو پاڻ کي سياڻيء جو ڏوهاري سمجهڻ لڳندو هيس۔ 

گهر هجڻ دوران ڄڻ گهر نه هوندو هيس، اسڪول هجڻ دوران اسڪول نه هوندو هيس،آئون هيس ئي ڪٿي؟ هاڻي ته منهنجي خيالن،سوچن توڙي زبان تي هوء ئي هوء هوندي هئي۔ گهر وارا ۽ دوست منهنجي ڪري تمام گهڻو پريشان هوندا هئا۔ اڪثر اڪيلو رهڻ پسند ڪندو هيس بس هڪ الڳ دنيا کڻي وسائي هيم جنهن ۾ آئون هيس ۽ منهنجي سياڻيء جون يادون هونديون هيون ۽ روئڻ منهنجو ڄڻ ته مشغلو بنجي چڪو هو۔ الائي ڇو هاڻي ماڻھن مان مون کي وحشت ٿيندي هئي۔ سياڻيء جي نوڪري ڇڏي وڃڻ کي ڏيڍ مهينو کن ٿي چڪو هو۔ ڪجهه وقت کان منهنجي سڀ کان ننڍي ڀيڻ کي نڪ جي تڪليف ٿي پئي هئي ۽ کيس ساھ کڻڻ ۾ ڏکيائي ٿيندي هئي سو کيس نواب شاھ اسپتال وٺي آياسين،ڊاڪٽرن کيس داخل ڪري آپريشن ڪرڻ جو چيو۔ اسان کي B بلاڪ جي آخري منزل تي E.N.T وارڊ ۾ رکيو ويو۔ منهنجي اڪثر ڪوشش هوندي هئي ته آئون ٻاهر گهٽ نڪران ان ڪري صرف مانيء جي ٽائيم تي ماما جن جي گهران ماني کڻڻ يا ميڊيڪل اسٽور تان دوا وٺڻ وقت ٻاهر نڪرندو هيس نه ته اڪثر پنهنجي ذات ۾ گم وارڊ جي ئي هڪ بيڊ تي ويٺو هوندو هيس۔ سڄي وارڊ ۾ صرف ٽي مريض سو به هڪٻئي کان پري هوندا هئا جنهن ڪري اتي رهڻ ۾ ڪا خاص دقت پيش نه پئي آئي۔ هڪ ڏينهن مجهند جو ٻه نرسون آيون جن منهنجي ڀيڻ کي اچي چيو ته اوهان جي اٽينڊنٽ کي چؤ ته اسان کي هوٽل تان چانھ وٺي آڻي ڏئي۔ ڀيڻ مون کي سڏ ڪري چانھ وٺي اچڻ جو چيو،مون کي هڪ نرس پيسا ڏنا پر مون کين پيسا رکڻ جو چيو ۽ پنهنجو ٿرماس کڻي آئون چانھ وٺڻ هليو ويس۔ چانھ کڻي مٿي اچي ڀيڻ وٽ رکيم ته ڀيڻ چيو ادا نرسنگ روم ۾ کين چانھ ڏئي اچو۔ آئون چانھ کڻي نرسنگ روم پهتس ۽ ٿرماس ٽيبل تي رکي واپس مڙي وڃڻ لڳس ته پويان هڪ نرس آواز ڏنو (ادا آصف ) جي (مون پوئتي مڙي کيس وراڻيو) نرس : اچو ويهو ادا اوهان سان ڪجهه ضروري ڳالهائڻو آهي۔ اوهان حڪم ڪيو ادي آئون ٺيڪ آهيان۔ نرس : پليز ادا اچو ويھو اچي،چانھ جو بھانو هو اصل ۾ اوهان سان ضروري ڪچھري ڪرڻي هئي سو اچو ويھو۔ تيسين ٻيء نرس ٽن ڪوپن ۾ چانھ اوتي هڪ ڪوپ مون ڏي وڌايو۔ آئون چانھ وٺي ڪرسيء تي ڪنڌ هيٺ ڪري ويھي رهيس ۽ کين مخاطب ٿيندي چيم هاڻي حڪم ڪيو ادي۔ نرس:ادا اوهان چانھ پي وٺو ڪچهري ڪيون ٿا۔ مون چانھ جون ٻه ٽي سپون ڀريون ۽ ڪوپ ميز تي رکيم۔ ڪجهه گهڙين کان پوء نرس ڳالهايو۔ نرس: ادا اوهان اهو ڪونه پڇندؤ ته اسان کي اوهان جي نالي جي ڪيئن خبر پئي؟ ڀيڻ يا امان ٻڌايو هوندو (مون کين چيو) نرس : نه ادا اسان انهن کان ناهي پڇيو،اوهان جي نالي جي اسپتال جي اڪثر نرسن کي خبر آهي۔ مون ڪنڌ مٿي ڪري انهن ڏي نهاريندي چيو ته آئون سمجهي سگهان ٿو،اوهان اهو ٻڌايو ته اوهان کي مون سان ڪھڙي ضروري ڳالھ ڪرڻي هئي؟ نرس: ادا اوهان کان معافي به وٺڻي هئي ۽ ڪجهه اوهان جون سياڻيء بابت غلط فهميون به دور ڪرڻيون هيون۔ سياڻيء جو نالو ٻڌي منهنجون اکيون پاڻيء سان ڀرجي آيون پر پاڻ تي ضبط ڪندي کانئن پڇيم ته ڇا جي معافي ۽ ڪهڙيون غلط فهميون؟ نرس: ادا جڏهن اوهان ٻيو دفعو امان کي وٺي نرسنگ هاسٽل تي سياڻيء سان ملڻ آيا هئا ان ڏينهن اسان پندرهن ويھ نرسون ميس ۾ ماني کائڻ پئي ويون سين ۽ سياڻي اڳ ۾ ئي ميس ۾ هئي،جڏهن چوڪيدار اسان کي چيو ته سياڻيء کي ٻڌائجو ته سندس مھمان آيا آهن۔ اسان سڀني نرسن صلاح ڪري سياڻيء کي وڃي ٻڌايو ته تنهنجو عاشق ۽ سندس ماء تنهنجي رشتي جي لاء آيا آهن ۽ اسان کيس اهو به چيو ته اگر تنهنجو پيء توسان ملڻ آيو ته اسان کيس تنهنجو ۽ آصف جو سڄو قصو ٻڌائينداسين۔ اسان جون اهي ڳالهيون ٻڌي سياڻيء روئي ڏنو۔ ان کان پوء جڏهن هوء اوهان سان ملڻ آئي ته اسان مان به ڪجهه ڇوڪريون ساڻس گڏ اوهان تائين آيون هيون سون، جڏهن اوهان جي ماء سياڻيء کان ايڊريس ۽ نمبر گهريو هو،جنهن جي جواب ۾ سياڻيء جيڪو اوهان کي چيو هو ته نمبر ۽ ايڊريس نٿي ڏئي سگهان ڇو ته اڄ جا ماڻهو خراب آهن ۽ آئون کانئن ڊڄان ٿي۔ ان خراب ماڻهو اوهان کي نه بلڪه اسان هاسٽل جي ڇوڪرين کي چيو هو ۽ ڊپ اهو هيس ته اسين سچ ۾ نه اها ڳالھ سندس والد کي ٻڌايون۔ آئون حيرانيء ۽ خاموشيء سان ان نرس جون ڳالهيون ٻڌي رهيو هيس۔ نرس ڳالھ کي جاري رکندي چيو ته اوهان تي اسان جيڪو طنز ڪيو ان کان علاوه هاسٽل تي سڀ ڇوڪريون گڏجي سياڻيء کي چيڙائينديون ۽ تنگ ڪنديون هيون سون جنهن کان بيزار ٿي هڪ ڏينهن اوچتو سياڻيء استعفا لکي نرسنگ ڪورس ڇڏڻ جو فيصلو ڪيو ۽ ڳوٺ هلي وئي۔ اسان سڀ اوهان ٻنهي جا ڏوهاري آهيون اسان کي معاف ڪجو۔ آئون پٿر بنجي نرس جون ڳالهيون غور سان ٻڌي رهيو هيس،سندس چهري تي پڇتاء ۽ شرمندگيء جو تاثر چٽو نظر اچي رهيو هو۔ منهنجي اکين ۾ ڳوڙها اچي ويا ۽ ڏکارو ٿي ويس جنهن ڪري ڪجهه ڳالهائڻ کان سواء اٿي نرسنگ روم مان نڪرڻ لڳس ته پويان نرس ڳالهايو۔ نرس: هوء اوهان سان بي پناھ محبت ڪندي هئي۔ آئون اتان اٿي ڀيڻ وارن جي ڀرسان ٻئي بيڊ تي اچي ليٽي پيس۔ سوچڻ لڳس ته جڏهن روڊ تي بيهي هڪ ٻئي کي ڏسندا هياسين ته ان وقت سياڻيء اها وضاحت ڇو نه ڪئي پر شايد هن امان کي ائڊريس ۽ فون نمبر کان جواب ڏنو هو ۽ شرمندگيء جي ڪري مون سان نه ڳالهائيندي هجي ۽ آئون وري کانئس ناراضگيء جي ڪري نه پيو ڳالهايان سو ايئن نه ڳالهائڻ جي ڪري وضاحتون نه ٿي سگهيون ۽ اسان وڇڙي وياسون۔ هڪ ڏينهن آئون ڪنهن ڪم سان هيٺ لٿس ته سرجيڪل 3 وارو وارڊ بواء مليو جنهن سياڻيء جي اصل ڳوٺ جو نالو ٻڌايو ۽ اهو به ٻڌايائين ته هاڻي هوء ڄامشورو ۾ پئي رهي ۽ حيدرآباد جي ڪنهن اسپتال ۾ نوڪري پئي ڪري۔ ڀيڻ کي اسپتال مان موڪل ملڻ کان پوء آئون حيدر آباد لاء نڪري پيس جتي لال بتي سميت جنهن اسپتال جي خبر ٿي پئي اتي پهچي کيس ديوانن جيان رات ڏينهن ڳوليندو رهيس۔ چوڏهن ڏينهن جي ڳولا کان پوء ست ڏينهن ڄامشورو جي (آر۔بي۔بي ڪالوني) ، (واپڊا ڪالوني) ۽ آس پاس جي آبادين جي گهٽين ۾ آوارگي ڪندي کيس ڳوليندو رهيس پر ڪٿي به سندس ڏس پتو نه مليو۔ آخر ناڪام ٿي ڳوٺ موٽي آيس۔ گورنمينٽ پرائمري اسڪول ٺارو لاشاريء ۾ منهنجي پوسٽنگ هئي جتي سائين غلام نبي عرف ماستر لاکو جي به پوسٽنگ ٿيل هئي جيڪو هڪ شاعر به هو۔ مون کي تازو تازو عشق جي چوٽ لڳل هئي سو هو اڪثر مون کي پنهنجي شاعري ٻڌائيندو هو ۽ آئون سندس شاعري پنهنجي منهن جهونگاري دل جو بار لاهڻ جي ڪوشش ڪندو هيس۔ هڪ ڏينهن سوچيم ڇو نه آئون پاڻ شاعري ڪري اها ڳايان سو ڪاغذ قلم کڻي لکڻ ويٺس۔

تنهنجي جدائيء ڪيو بيمار    منهنجي دوا تنهنجو ديدار۔

دل کي ڏنا ٿئي زخم هزار منهنجي دوا تنهنجو ديدار۔

دل مون پنهنجي تو کي ڏني هئي توتي ڪري اعتبار۔ ٺڪرائي تو نازڪ دل جا ٽڪرا ڪيا هزار۔ ڪيو تو مون کي ڏاڍو لاچار منهنجي دوا تنهنجو ديدار۔

جي نه نڀائڻو توکي هيو پوء ڪرين نه ها تون پيار۔ ڇو ٿي ڪيئي اهي ڪوڙا واعدا يار ڪوڙا اقرار۔ کسي وئين تون دل جو قرار منهنجي دوا تنهنجو ديدار۔

آصف جوڻو ياد ڪري توکي روئي پيو زاروزار۔ ڪو نه اٿس آرام ڪو مٺڙا تنهنجو اٿس انتظار۔ حياتي آ تو سواء بيڪار منهنجي دوا تنهنجو ديدار۔

اهي سٽون منهنجي زندگيء جون پهريون سٽون هيون جيڪي مون سياڻيء جي عشق ۾ لکيون هيون۔ استاد ماستر لاکو کي جڏهن اها شاعري ٻڌايم ته کيس يقين نه پيو اچي ته هي آصف لکيون آهن۔ ماستر لاکو منهنجي حوصلا افزائي ڪئي ۽ يقين ڏٺاريو ته تون سٺو لکين سگهين ٿو،سندس اتساھ ڏيارڻ کان پوء مون لکڻ شروع ڪيو۔ منهنجو مٿيون گيت سريلي راڳيء مرحوم لطيف چانڊيو ڪافي محفلن ۾ ڳايو۔ ڪجهه ڏينهن کان پوء آئون ڪنهن ڪم سانگي نواب شاھ ويس دل چيو ته ان وارڊ ۾ وڃان جتي سياڻيء سان منهنجي پهرين ملاقات ٿي هئي۔ وارڊ ۾ آيس ته اتي مون کي اهو وارڊ بواء مليو جنهن مون کي سياڻيء جي ڳوٺ بابت ٻڌايو هو ۽ ٻڌايو هيائين ته سياڻي هن وقت ڄامشورو ۾ رهي پئي ۽ حيدرآباد ۾ ڊيوٽي اٿس۔ وارڊ بواء حال احوال ورتو کيس ٻڌايم ته چوڏهن ڏينهن حيدرآباد ۽ ست ڏينهن ڄامشورو ۾ رلي آيو آهيان پر ڪوبه ڏس پتو نه پيو۔ وارڊ بواء کلندي چيو ته يار آصف مون کي ڪنهن غلط ٻڌايو هو ته هوء ڄامشورو ۾ ٿي رهي ۽ حيدر آباد ۾ ڊيوٽي ٿي ڪري پر هن ڀيري پڪي خبر آهي ته شهداد پور ۾ مڊ وائيف جو ڪورس پئي ڪري۔ وارڊ بواء جا ٿورا مڃي کانئس موڪلائي ڳوٺ آيس۔ ٻئي ڏينهن استاد غلام نبي لاکو کي حال احوال ڏنم جنهن ٻڌايو ته شهداد پور اسپتال ۾ شاعر قاسم انڙ جي ڊيوٽي اٿئي ان سان وڃي ملجان شايد اهو تنهنجي مدد ڪري۔ ٻئي ڏينهن آئون شهداد پور پهتس جتي پوليس ٽريننگ سينٽر ۾ هڪ دوست ڊيوٽي ڪندو هو ان کي ساڻ ڪري شهداد پور اسپتال ۾ اچي شاعر قاسم انڙ جي پڇا ڪرائي ساڻس مليس ۽ کيس پنهنجو تعارف ڪرائي حال احوال ڏنومانس ۽ کيس مدد جو چيم۔ هن مون کي تسلي ڏني ته ڪجهه ڪيون ٿا۔ ٽن ڏينهن تائين آئون شهداد پور اسپتال ۾ ڀٽڪندورهيس پر سياڻي جو ڪو به ڏس پتو نه پئجي سگهيو۔ چوٿين ڏينهن قاسم انڙ مڊ وائيف ڪورس ڪندڙن جي لسٽ آڻي ڏني جنهن ۾ سياڻيء نالي ٻه عورتن هيون پر سندن ذات ٻي هئي۔ آخر مايوس ٿي واپس ڳوٺ موٽي ويس۔ هاڻي هر مهيني جون پهريون ٽي تاريخون سياڻيء جي اباڻي ڳوٺ وڃي ڪڏهن فوٽ پاٿ ته ڪڏهن درويش جي مزار وٽ گذاريندو هيس ۽ ايندڙ ويندڙن ۾ اهو چهرو ڳوليندو هيس جنهن کي ڏسڻ سان منهنجا غم لهن ۽ بي چين دل کي چين ۽ قرار ملي ها پر هر ڀيري مايوس موٽي ايندو هيس۔ گهر کي ٽائيم نه ڏيڻ جي برابر ڏيندو هيس،اسڪول کان به اڪثر گسائيندو هيس۔ هڪ پاسي محبوب جي ڳوٺ رلندو رهندو هيس ته ٻئي پاسي ڳوٺ هجڻ دوران ڳوٺ جي قبرستان ۾ روئندي راتيون گذرنديون هيون۔ ان حالت ۾ گهر وارا تمام گهڻو پريشان هوندا هئا ۽ مون کي سمجهائڻ ۽ پير کوڙڻ جا جتن ڪندا رهيا پر مون کي سندن ڪا نصيحت ڪا ڳالھ سمجھ ۾ نه ايندي هئي۔ منهنجي ان وقت جي سٺن دوستن ۾ ستار مري، سائين پير پرويز هوندا هئا جن سان گڏجي ماضيء ۾ ڳوٺ گهرام مري جي ڪرڪيٽ ٽيم ۾ کيڏندو هيس۔ انهن ٻنهي دوستن مون کي سنڀالڻ ۽ سهاري ڏيڻ جي ڪوشش ڪئي ۽ آهستي آهستي ڪرڪيٽ تي وٺي وڃڻ لڳا ۽ هاڻي هڪ نئين ٽيم داتا والي ڪرڪيٽ ڪلب جوائن ڪئي هيائون مون کي به اتي کيڏائڻ جي لاء وٺي وڃڻ لڳا جنهن ڪري ڪجهه وقت ماڻھن ۾ گذارڻ لڳس پر محبوب سائينء جي ڳولا ختم ڪانه ڪيم۔ 23 سيپٽمبر 1997ع تي منهنجو محبوب سائين جي ڳوٺ وڃڻ جو پروگرام ٿيو۔امان کي شڪ پيو ته هي ڪاڏي ٻاهر وڃي ٿو سو مون کي سمجهائيندي چيائين ته پٽ تنهنجي گهر واري فاطمه اميد سان آهي مٿان ڏينهن به ڀرجي آيا اٿس تون ڪاڏي ٻاهر نه وڃجان۔ ڪاڏي ڪونه ٿو وڃان امان ايئن چئي آئون ٻاهر نڪري ويس ۽ سياڻيء جي ڳوٺ وڃي نڪتس ۔ هڪ هفتي تائين درويش جي مزار جي داخلي گيٽ جي ٻاهران گذاري ڳوٺ موٽيس۔ گاڏي مان لهي گهر ويس پئي ته رستي ۾ ننڍڙي ڀاڻيجي ملي جنهن ٻڌايو ته ماما توکي پٽ ڄائو آهي ۽ اڄ ٽيون ڏينهن اٿس۔ آئون گهر آيس امان روئي مبارڪون ڏنيون،گهر واري به منهنجي نه هجڻ جي ڪري ڏاڍي ڏکاري هئي۔ مون ننڍڙي کي کڻي پيار ڪيو ۽ وڃي سمهي رهيس۔ مون کي هڪ هفتي جو اوجاڳو هو سو مون کي ننڊ اچي وئي۔ ڪجهه وقت کان پوء نواب شاھ وڃڻ ٿيو جتي ساڳيو وارڊ بواء مليو جنهن چيو ته تو وارو همراھ راولپنڊي ۾ پنهنجي چاچي وٽ ٿو رهي۔ ڪجهه ڏينهن کان پوء ٻه ڪپڙن جا وڳا کڻي نڪري پيس راولپنڊي،پندرهن ڏينهن اتي آوارگي ڪندو رهيس۔ ڪو ڏس پتو نه هو ڪو واسطي وارو نه هو بس روڊن رستن تي ڀٽڪندو رهيس اوجاڳن ۽ روڊن تي سمهڻ جي ڪري مون کي چيلھ ۾ شديد سور پوڻ لڳو جيڪو ختم ٿيڻ جو نالو ئي نه پيو وٺي آخر تڪليف وڌي وڃڻ جي ڪري هڪ ڀيرو ٻيهر مقصد ۾ ناڪام ٿي ڳوٺ موٽي آيس۔ وقت گذرندو ويو پر سياڻيء جي ڳولا ختم نه ٿي۔ منهنجو پٽ جنهن جو نالو مون سجاد آصف رکيو ۽ بابا سائينء ان تي پنهنجي والد صاحب يعني ڏاڏا سائين جو نالو عبد المومن رکيو هو ڪجهه مهينن جو ٿيو ته بيمار ٿي پيو۔ کيس نواب شاھ اسپتال کڻائي ويس۔ اسپتال ۾ ساڳيو وارڊ بواء مليو جنهن پڇا ڪئي ته سياڻيء سان ملاقات ٿيئي يا نه؟ نه ادا تنهنجي ٻڌائڻ کان پوء آئون کيس راولپنڊيء ۾ به ڳولڻ ويو هيس۔ وارڊ بواء ٽھڪ ڏيندي چيو ته تون سفا چريو آهين،آئون هر دفعي تو سان مذاق ڪرائيندو هيس ۽ تون وڃي اتي نڪرندو هئين۔ وارڊ بواء جي اها ڳالھ ٻڌي منهنجي اکين مان لڙڪ وهي آيا ۽ کانئس موڪلائڻ بنان هليو آيس۔ اسپتال ۾ منهنجو قصو مشهور ٿيل هو سو مختلف ماڻهن سياڻيء بابت مختلف ڄاڻ ڏني۔ ڪنهن مورو،ڪنهن هالا ڪنهن سانگهڙ ته ڪنهن ڪوٽڙيء ته ڪنهن سول اسپتال ڪراچي ۾ سندس هجڻ بابت ٻڌايو۔ ننڍڙي جي ٺيڪ ٿيڻ کان پوء مون سياڻيء کي ڳولڻ جي لاء مورو،ڪوٽڙي ،هالا ۽ سانگهڙ جا به پنڌ ڪيا ۽ ڪيترن ڏينهن تائين کيس ڳوليندو رهيس۔ گهڻي رلڻ ،موسمي اثرن،گهڻي آوارا گرديء ۽ اڪثر روڊ يا پٽ تي سمهڻ جي ڪري چيلھ جو سور ڏينهون ڏينهن وڌندو ويو جنهن جو آخر اپريل 1998ع ۾ نواب شاھ مان آپريشن ڪرايم پر پندرهن ڏينهن کان پوء هڪ ڀيرو ٻيهر سور شدت اختيار ڪري ويو جنهن جو ڏيڍ سال مختلف ڊاڪٽرن،حڪيمن کان علاج ڪرائيندو رهيس پر ڪوبه افاقو نه ٿيو۔بيمار هجڻ دوران گڏ ڪرڪيٽ کيڏندڙ دوست مرتضي گجر جنهنجو ميڊيڪل اسٽور هيو ان منهنجي تمام گهڻي مدد ڪئي۔ 1999ع ۾ سياڻيء کي ڳولڻ سول اسپتال ڪراچي ويس جتي کيس 27 ڏينهن اسپتال جي هر وارڊ ۾ ڳوليم پر هوء نه ملي سگهي۔ ڳولا دوران منهنجي طبيعت تمام گهڻي خراب ٿي وئي،هيٺيون ڌڙ 80 فيصد ڪم ڪرڻ ڇڏي ويو۔تمام گهڻو ڪمزور ٿي ويس جنهن ڪري جيئن تيئن ڪري ڳوٺ پهتس۔ ان وقت منهنجي پوسٽنگ ڳوٺ سوائين مهر ۾ هوندي هئي ۽ منهنجي علاج ۾ مون استاد مرحوم علي گل مهر منهنجو گهڻو ساٿ ڏنو۔ جتي مون کي سول اسپتال نواب شاھ ۾ داخل ڪيو ويو اهو ڊسمبر 1999ع جو مهينو هيو۔ اسپتال ۾ مون سان گڏ منهنجا دوست ستار مري،پير پرويز،پير اشرف ۽ عبد السلام ميمڻ گڏ هوندا هئا جن منهنجو تمام گهڻو ساٿ ڏنو۔ اسپتال ۾ خبر پئي ته منهنجو ساڄو گردو مڪمل ڪم ڪرڻ ڇڏي ويو آهي ۽ کاٻو گردو به ڪمزور آهي۔ گردن جي مسئلي جي ڪري ڊاڪٽرن کي داخل ته يورالاجي وارڊ ۾ ڪرڻ کپندو هو پر هنن ايئن نه ڪيو ۽ سرجيڪل وارڊ 2 ۾ رکيائون جتي هنن مون تي هڪ ٽيسٽ ڪئي۔ آپريشن ٿيٽر ۾ وٺي وڃي پيشاب جي ناليء وسيلي لوهي ٽيوب داخل ڪري گردي مان ٽيسٽ جي لاء پاڻي ڪڍڻ جي ڪوشش ڪيائون پر نشي واري ڊاڪٽر جي نه هجڻ ڪري اهو سڄو عمل بغير نشي جي ڪرڻ جي ڪوشش ڪرڻ لڳا۔ شروع ۾ ته دانهن ڪرڻ کان پاڻ کي روڪيم پر لوهي ٽيوب جڏهن نرن کان اڳتي ڪراس ٿيو ته محسوس ڪيم منهنجون نسون وڍجي رهيون آهن جنهن ڪري مون کان دانهن نڪري وئي۔ هڪ ڊاڪٽر ٻين کي چيو خدا جو خوف ڪيو هي ڪم يورالاجي وارن جو آهي اوهان انسانن تي تجربا ڪري انهن جي زندگين سان کيڏڻ يا کين عيبدار ڪرڻ بند ڪيو۔ تڏهن ڊاڪٽرن ٽيسٽ جو پروگرام ملتوي ڪيو ۽ مون کي اٿي شلوار پائڻ جو چيائون۔ منهنجو جسم ڏڪي رهيو هيو هو ۽ مرداني عضوي مان رت ڦوهاري واگر وهي رهيو هيو۔ مون ڪجهه دير ساهي پٽي شلوار پائي ۽ آپريشن ٿيٽر مان ٻاهر نڪتس۔ منهنجي سڄي شلوار رت ۾ لت پت ٿي چڪي هئي ۽ فرش تي رت سان منهنجي پيرن جا نشان ٺهي رهيا هئا۔ ستار مري ۽ عبد السلام ميمڻ مون کي اچي سهارو ڏنو ۽ وارڊ ۾ وٺي آيا جتي بابا سائين مون سان ملڻ جي لاء آيل هو ان جڏهن منهنجي شلوار رت ۾ ڳاڙهي ڏٺي ۽ فرش تي رت سان پيرن جا نشان ڏٺا ته کيس هارٽ اٽيڪ ٿي ويو جنهن کي منھنجي دوستن وڃي ڊاڪٽرن کي ڏيکاريو ۽ بابا سائين کي ICU ۾ داخل ڪيو ويو۔ ان ٽيسٽ جي نتيجي ۾ ٽي ڏينهن منهنجو پيشاب بند هو۔ٻه ٽي ڏينهن کان پوء ڊاڪٽرن فيصلو ڪري ٻڌايو ته ٻن ڏينهن کان پوء تنهنجو ساڄو گردو آپريشن ڪري ڪڍيو ويندو۔ ٻئي ڏينهن ڪاوش ۽ شام اخبار ۾ منهنجي بيمار ۽ اسپتال ۾ داخل ٿيڻ جي خبر ڇپي جنهن کان پوء هڪ ڊاڪٽر مون کي اچي صلاح ڏني ته تون SIUT ڪراچي وڃي علاج ڪراء هتي هي ڪاسائي ڊاڪٽر توکي ماري ناڪاره بنائي ڇڏيندا۔ ان مھربان ڊاڪٽر جي مشوري کان پوء مون پنهنجي دوستن سان بعد ۾ ماما جي گهر وڃي پنهنجي گهر ڀاتين سان صلاح ڪئي جن سڀني جي اها صلاح بيٺي ته ڪراچي وڃڻ گهرجي۔ ٻئي ڏينهن منهنجو پيارو دوست ستار مري جيڪو اسڪول جي زماني جو دوست هو ان سان گڏجي ڪراچي روانو ٿي ويس۔ زندگيء ۾ کوڙ اهڙا ماڻهو هوندا آهن جيڪي ڪجهه وکون گڏ کڻندا آهن پر تڪليف ۾ ڪير هڪ وک به گڏ هلندو آهي ته سندس اها وک زندگي ڀر ياد رهندي آهي ۽ ڪڏهن به وسرندي ناهي۔ بيماريء جي دوران ٻن دوستن هر حوالي سان خاص ڪري مالي معاملي ۾ مون کي ڪڏهن به اڪيلو نه ڇڏيو ۽ وڏو سهارو ڏنو اهي ٻه دوست ستار مري ۽ مرتضي گجر هئا۔ ستار مريء ٻي قرباني اها ڏني ته گهر جو اڪيلو مرد ٿي ڪري پنهنجي فيمليء کي الله جي آسري تي ڇڏي ڪراچيء ۾ ٻه ڀيرا گڏ هليو،هڪ ڀيرو سائين اقبال جوڻو چوڏهن ڏينهن گڏ هو جيڪو به منهنجو دوست آهي۔ آئون ۽ ستار مري سول اسپتال ڪراچي پهتاسين جتي SIUT جي ايمرجنسي وارڊ ۾ داخل ڪيو ويو ۽ پهريون سڄو مهينو ٽيسٽن ۾ گذريو ان کان پوء منهنجو علاج شروع ٿيو۔ اوچتو لائوڊ اسپيڪر ۾ آذان جو تيز آواز گونجيو جنهن مون کي يادن جي دنيا مان واپس اچڻ تي مجبور ڪيو هڪ پل لاء ته سمجھ ۾ نه آيو ته آئون ڪٿي آهيان پر جڏهن ياد ڪرڻ جي ڪوشش ڪيم ته ياد اچي ويو ته آئون پنهنجي محبوب سياڻيء جي شهر ۾ هڪ درويش جي مزار جي داخلي دروازي جي ڀر سان رستي جي ڪناري تي ستو پيو آهيان۔ مون کي ياد اچي ويو ته جڏهن مون کي خبر پئي هئي ته مون کي جگر جي ڪينسر آهي ته ڪينسر جو علاج اڌ ۾ ڇڏي وڇڙي ويل محبوب جي ڳولا لاء هتي آيو هيس ۽ اڄ مون کي هتي پنجين رات گذري رهي آهي ۽ ننڊ نه اچڻ جي ڪري هڪ رات ۾ آئون پنهنجي گذريل ساڍن ٽن سالن جي زندگي کي يادن ۾ سنڀاري رهيو هيس پر فجر جي آذان جي آواز مون کي يادن جي دنيا مان واپس اچڻ تي مجبور ڪيو۔ صبح جو آئون ڳوٺ پهتس جتي گهر وارا سخت پريشان هئا،ڇو ته امان SIUT جي وارڊ ۾ مون سان ڳالهائڻ جي لاء فون ڪئي هئي جتان کيس ٻڌايو ويو ته آصف ڪجهه ڏينهن پهريان اسپتال مان بنان ٻڌائڻ جي علاج اڌ ۾ ڇڏي وڃي چڪو آهي اها ڳالھ ٻڌي سڀ پريشان هئا پر کين خبر هئي ته آئون ڪاڏي ويو هوندس۔ اسپتال کان واپسيء کان پوء گهر وارن مون کي تمام گهڻو سمجهايو ته علاج جاري رک پر مون کي هاڻي زندگيء جي ڪابه چاهت باقي نه رهي هئي۔ ها ايترو ضرور هو جو اسپتالن ۾ ڪافي وقت گذارڻ ۽ غريب مريضن کي نڌڻڪيء حالت ۾ تڙپندي ڏسڻ ، بيماريء دوران پنهنجن جو منهن موڙي وڃڻ ۽ حالتن مون کي ڪافي ڪجهه سيکاريو هو جنهن ڪري فيصلو ڪيم ته هاڻي بقايا جيتري به زندگي آهي ان کي هنن ٽن مقصدن جي لاء وقف ڪندس۔ 1.سياڻيء جي ڳولا جاري رکڻ۔ 2.غريب ۽ بي پھچ مريضن جي لاء ڪجهه ڪرڻ۔ 3.زندگيء جي حقيقي مقصد جي ڳولا ڪرڻ۔ سياڻيء جي ڳولا جي لاء طئه ڪيم ته هر مهيني ۾ فقط ٽي ڏينهن ، گرمين جي ٻن مهينن جون ۽ سياري جي ڏھ ڏينهن جون موڪلون سندس ڳولا جي لاء وقف هونديون۔ ايئن هر مهيني جي پگهار کڻي ٽي ڏينهن ۽ گرمين ۽ سردين جي موڪلن ۾ به وقت بوقتن سياڻيء جي ڳولا جي لاء 2006ع تائين ويندو رهيس،2007ع ۾ سندس ڳولا جو ذڪر ايندڙ قسط ۾ ڪندس۔

سماجي ۽ فلاحي ڪمن کان علاوه حق يعني زندگيء گذارڻ جي صحيح مقصد جي ڳولا واري حصي کي مون ٽن سرگرمين ۾ ورهايو۔

1.ادبي سرگرميون 2.مذهبي لٽريچر پڙھڻ۔ 3.سماج جي اصلاح جي خاطر ڳوٺاڻيون ڪچهريون ڪرڻ۔ پر انهن سڀني ڪمن کان اڳ ۾ پنهنجي موجوده جذبات ۽ ڪيفيتن کي ڪنٽرول ڪرڻ منهنجي لاء هڪ وڏو چيلينج ۽ مسئلو هيو۔ ان چيلينج کي منهن ڏيڻ جي لاء منهنجي گهر وارن خاص ڪري امان ۽ گهر واريء فاطمه منهنجي وڏي خدمت ڪئي ۽ سمجهايو انهن کان علاوه ستار مري،پير پرويز ۽ هڪ نئين دوست عرفان ڪولاچيء ان جي لاءاهم ڪردار ادا ڪيو ۽ مون کي اهي ٽئي دوست وڏو ٽائيم به ڏيندا هئا ۽ سپورٽ به ڪندا هئا۔ اسپتال کان موٽڻ کان پوء شايد مهينو کن منهنجي طبيعت خراب رهي پر ان کان پوء معجزاتي طور تيزيء سان منهنجي طبيعت ۾ سڌارو اچڻ لڳو توڙي جو ٿوري ڪمزوري رهي پئي پر جسم تان ڇڻي ويل وار ٻيهر موٽي آيا ۽ جسم جو هيٺيون ڌڙ ڪم ڪرڻ لڳي ويو۔ ايترو ضرور هو جو ٿورو به هارڊ ورڪ ڪندو هيس ته بلڊ پريشر هڪدم گهٽجي ويندو هو۔ هاڻي تيزيء سان منهنجي زندگي معمول تي اچي رهي هئي۔ اسڪول به باضابطا وڃڻ لڳس ۽ گهر کان علاوه ستار مري ، پير پرويز سان اڪثر وقت سڪرنڊ شگر مل تي گذرندو هو۔ عرفان ڪولاچي ڪراچي جو هو ان ڪري ڪڏهن آئون ان وٽ ويندو هيس ۽ هو جي ڳوٺ ايندو هو ته ان سان به سڪرنڊ شگر مل تي وقت گذرندو هو جتي سندس مامي جي هوٽل هئي۔ 1.ادبي سرگرمين جي معاملي ۾ سائين شبير سيال هڪ ئي منهنجو دوست هو جنهن منهنجي تمام گهڻي مدد ڪئي۔ سائين شبير سيال اسان جي يونين ڪاؤنسل مرزا باغ تي اسڪولن جي مٿان سپر وائيزر ٿي آهي هو جنهن سان بعد ۾ ويجهڙائي ٿي ۽ ويجهڙائي دوستيء ۾ بدلجي وئي۔ سنڌ ۾ ڪٿي به ڪو مشاعرو ٿيندو هو ته سائين شبير سيال مون کي پاڻ سان گڏ وٺي ويندو هو ۽ ڪافي شاعرن ۽ ادب دوستن سان تعلق جڙيو۔ ڊاڪٽر ذوالفقار سيال جي سيڪريٽري هجڻ دوران سائين شبير سيال جي ئي ڪاوشن ۽ ڪوششن سان سنڌي ادبي سنگت جوڻا موري شاخ کي مرڪز پاران ڪچو الحاق مليو هو۔ جوڻا موري شاخ جي ان وقت ميمبر شپ اوڻٽيھ هئي جن ۾ اسسٽنٽ اليڪشن ڪمشنر سائين اصغر سيال به ميمبر هو ۽ هر پندرهين ڏينهن باضابطا طور تي دستوري گڏجاڻي به ٿيندي هئي۔ پڪي الحاق ملڻ وقت جوڻا موري شاخ کي پڪو الحاق فقط ان ڪارڻ نه ڏنو ويو هو ڇو ته سائين راشد مورائي منهنجو تمام گهرو دوست هو ۽ آئون کيس گهڻو ويجهو هيس ۽ مرڪز کي اهو خدشو هو ته متان آصف مرڪزي اليڪشن ۾ سائين راشد مورائيء جي چوڻ تي سائين تاج جويو پينل کي ووٽ ڏئي نه وٺي،بعد ۾ ڪچو الحاق به ختم ڪيو ويو۔

سائين راشد مورائي منهنجو تمام سٺو دوست هو ۽ مون سان بيحد گهڻو پيار ڪندو هو، مورو جو هڪ شاعر دوست بالا بلوچ ،مون ۽ ڪجهه ٻين دوستن بزم راشد مورائيء جو قيام عمل ۾ آندو جنهن جو سرپرست اعلي سائين راشد مورائي، چيف آرگنائزر بالا بلوچ ۽آرگنائيزر آئون (آصف جوڻو) هياسين ۽ قاضي احمد ،مورو سميت ڪافي شهرن ۾ يونٽ کولياسين پر سنڌي ادبي سنگت مورو سان تعلق رکندڙ ڪجهه شاعر جيڪي سائين راشد مورائي سان حسد ڪندا هئا انهن پهريائين سائين راشد مورائي ڏي ڌمڪي آميز خط لکي بزم راشد مورائي کي ختم ڪرڻ جو چيو پر جڏهن ڌمڪين اثر نه ڏيکاريو ته سائين راشد مورائي ڏي ياسين سڳوري موڪلي ان جا واسطا ۽ قسم ڏنا ويا جنهن ڪري سائين راشد مورائي اسان کي بزم راشد مورائي بند ڪرڻ جو حڪم ڪيو۔ سنڌي ادبي سنگت قاضي احمد هميشه کان وٺي غير فعال رهي هئي جنهن جون دستوري گڏجاڻيون به نه ٿينديون هيون ۽ شاخ جا اڪثر ميمبر اهڙا هئا جيڪي ادب سان تعلق ئي ڪو نه رکندا هئا البته 2009ع ۾ جڏهن سائين ممتاز ميمڻ شاخ جو سيڪريٽري ٿيو ته باضابطا دستوري گڏجاڻيون به ٿينديون هون ۽ ڪافي سٺا پروگرام به ڪرايا ويا ان وقت مون به ميمبرشپ جي درخواست ڏني جيڪا منظور ڪئي وئي پر 2010ع ۾ منهنجي ۽ سائين منير پيرزادو جي ميمبر شپ اهو چئي ختم ڪئي وئي ته اوهان ٻئي قومي انقلابي شاعري ٿا ڪيو۔حقيقت هيء هئي ته آئون ۽ سائين منير پيرزادو جيئي سنڌ متحدا محاذ جا سرگرم ڪارڪن هياسون ۽ سنگت ڊڄي وئي ته هنن ٻن جي ڪري ٻي سنگت نه ڏچي ۾ پوي ان ڪري اسان جي ميمبرشپ ختم ڪئي وئي۔ سائين معشوق ڌاريجو منهنجو سٺو دوست هو ۽ ڪافي معاملن ۾ منهنجي رهنمائي به ڪندو آيو هو پر 2010ع ۾ هن مون تي هڪ مضمون لکيو جنهن جو عنوان هو (سونهن ۽ سچ جو شاعر آصف جوڻو) سندس اهو مضمون تڏهن ڪاوش ۽ شام اخبارن ۾ ڇپيو هو۔مضمون ڇپجڻ جي چوٿين ڏينهن آيو ۽ اچي حال احوال ڏنائين ته مون وٽ انٽيليجنٽس جا ٻه ماڻھو آيا هئا ۽ ابتا سبتا سوال پئي ڪيائون جنهن جو سبب مون کي توتي لکيل مضمون ٿو لڳي ان ڪري هاڻي پاڻ پري رهنداسين ۽ نه ملنداسين۔ 2012ع ۾ منهنجي شاعريء جو ڪتاب (آزاديء جا متوالا) ڇپرائڻ جو ارادو ٿيو۔ڪافي دوستن کي چيم ته ڪتاب جي لاء تاثر لکو پر دوستن خوف کان انڪار ڪري ڇڏيو صرف سائين راشد مورائي جنهن کي تازو فالج جو جهٽڪو لڳو هو ۽ هو قلمي پورهئي ڪرڻ کان قاصر هو جنهن ڪري سائين راشد مورائي سائين مير محمد پيرزادو کان مھاڳ لکرائي ڏنو،ٻئي ڪنهن شاعر دوست جي نه لکڻ جي ڪري ڪتاب جي بيڪ بيج تي آخري وصيعت جي عنوان سان پنهنجي ئي نظم جو هڪ ٽڪرو رکڻو پئجي ويو۔ 2.فلاحي ڪم: اسپتال کان واپسيء تي مون ۽ ستار مريء پاڻ ۾ صلاح ڪري 2001ع ۾ راشد مورائي بلڊ ڊونرس ايسوسيئيشن نالي سان فلاحي ڪم جي شروعات ڪئي جنهن ۾ مختلف ڳوٺن ۽ ڪرڪيٽ ٽيمن سان تعلق رکندڙ دوستن تعاون ڪيو۔ان فلاحي تنظيم ۾ 264 ميمبر هئا ۽ غريب،بي پھچ مريضن کي مفت ۾ رت مهيا ڪري ڏيندا هياسين جيڪو سلسلو منهنجي روپوش رھڻ تائين هلندو رهيو ان کان پوء جي خبر ناهي۔ 3.سماجي ۽ معاشرتي بيمارين،ڪڌين ريتن ۽ رسمن خاص ڪري ڪارو ڪاري رسم تي مختلف ڳوٺن ۾ ڪچهريون ڪندو هيس۔ 4.مذهبي تعليم: 2004ع ڌاري منهنجي اسڪول جي زماني جو هڪ دوست گامون مھر،(جنهن سان منهنجي دوستي ئي ڪتابن جي ڪري ٿي هئي) سندس هڪ مائٽ شريف مهر جيڪو گامون مهر جي معرفت منهنجو دوست ٿيو هو،اسان ٽئي ڪتاب گڏجي پڙهندا هياسين۔ بنيادي طور تي اسان ٽنهي جو تعلق ديو بندي گهراڻن سان هو۔اسان جون پاڻ ۾ ڪافي سالن تائين ڪچهريون ٿينديون هيون،بحث مباحثا ٿيندا هيا،پنهنجي سماجي سرگرمين ، ڪردار تي به ڪچهريون ٿينديون هيون ۽ تنقيدي جائزو وٺندا هياسين جنهن جو تت يا نتيجو هر ڀيري اهو ڪڍندا هياسين ته اسان جون جيڪي به سماجي سرگرميون آهن اهي پنهنجي جاء تي درست آهن پر شايد اڃان ڪجهه ٻيو فهم آهي جنهن لاء اسان موڪليا ويا آهيون۔ ان وقت اهو فهم سمجھ ۾ نه پئي آيو پر دماغ جي ڪنهن ڪنڊ ۾ ڪو خيال اهڙو اٿندو هو جيڪو چوندو هو ته اڃا ڪجهه ٻيو۔ بلڪل اهڙي ڪيفيت هوندي هئي جهڙي ڪيفيت ان هرڻ جي هوندي آهي جنهنکي پنهنجي دن مان مشڪ جي خوشبوء ايندي آهي ۽ هو ان مشڪ کي بي چين ۽ بيتاب ٿي ڳوليندو رهندو آهي ۽ ڳولا ڪندي ڪندي مري ويندو آهي پر هو ته آهي هرڻ جڏهن ته اسان اشرف المخلوق انسان آهيون ۽ انسان ڳولي ته هر شيء کي ڳولي لهڻ جي صلاحيت رکي ٿو۔ اسان به مختلف ڪتاب پڙهيا پر اڳتي هلي نالي وارو عالم سائين عزيز الله ٻوهيو صاحب سان ملاقاتون ۽ ڪچهريون ٿيون جنهن جي ڪچهرين مان اسان کي هڪ نئون دڳ مليو۔ ان کان پوء اسان صحيح بخاري ۽ قرآن جا مختلف ترجما ۽ تفسيرون پڙهيون آخر 2006ع ۾ اسان ٽنهي ديو بندي فرقي مان هٿ ڪڍيو۔ اسان جو هي فيصلو اسان ٽنهي جي زندگين جو سڀ کان ڏکيو ۽ خطرناڪ فيصلو هيو جنهن ۾ اسان تي ڪفر جون فتوائون لڳيون۔ مون کي گامون ۽ شريف سان سندن گهر جي ڀاتين جي رويي جي ته خبر ڪانهي پر مون سان ڳوٺ وارن سماجي بائيڪاٽ ڪري ڇڏيو۔ دوستن ۽ عزيزن ايتري قدر جو گهر وارن ڳالهائڻ ڇڏي ڏنو۔ ڳوٺاڻا سلام جو جواب ڏيڻ ڇڏي ويا۔ جنهن اوطاق تي ويندو هيس اتان ٻيا اٿي هليا ويندا هئا۔ ڳوٺ ۾ ڳالهيون هلڻ لڳيون ته آصف ۽ فاطمه جو نڪاح ٽٽي چڪو آهي۔ منهنجي وڏي ڀيڻ ان واقعي کان پوء مون سان ڳالهائڻ ڇڏي چڪي هئي اها هڪ ڏينهن روئندي ۽ خوف جي عالم ۾ منهنجي ڪمري ۾ داخل ٿي ۽ اچڻ شرط هڪ ڀونڊو ڏئي ،پنهنجي پوتي لاهي مون کي وڌي ۽ خوف مان ڏڪندي چوڻ لڳي ته پنهنجو سامان کڻ ۽ ڳوٺ مان نڪري وڃ۔ ڇو نڪران آخر ڇا ڳالھ آهي؟ (مون حيرت مان کانئس پڇيو) ڀيڻ: مولوي (سندس گهر وارو) اچي ٻڌايو آهي ته اڄ مسجد ۾ مولوين جي آصف بابت ميٽنگ رکيل هئي جتي فتوي ڏئي فيصلو ڪيو اٿن ته آصف مرتد ٿي ويو آهي ۽ هو واجب القتل آهي،اهو به فيصلو ڪيو اٿن ته کيس ٽن ڏينهن ۾ قتل ڪندا سو تون هتان هليو وڃ گهٽ ۾ گهٽ زنده ته هوندي مئا ماريا اندر ساڙي ڇڏيئي(اوڇنگارون ڏيندي چيائين) مون کيس چيو ڀلي مون کي قتل ڪن باقي ڳوٺ مان ڀاڙيو ٿي نه ڀڄندس،ها منهنجي سوالن جا قرآن مان مطمئن ڪندڙ جواب ڏين پوء جيئن چوندا ايئن ڪندس۔ ڀيڻ سمجهائڻ جي ڪوشش ڪئي پر ڏٺائين ته هي ڪونه مڙندو سو روئندي واپس موٽي وئي۔ شهيد استاد محمد اشرف جوڻو (جنهن کي اسڪول مان پاڪستان جا خفيه ادارا ڊيوٽيء دوران کڻي ويا ۽ ارڙهن مهينا ٽارچر سيل ۾ رکڻ کان پوء راؤ انوار هٿان ملير ۾ کيس ڪوڙي مقابلي ۾ شهيد ڪيو ويو هو) ۽ سائين عبدالحليم جوڻو مون کي هڪ ڀيرو سڪرنڊ ۾ ديو بند جي مشهور عالم مفتي احمد چانڊيو صاحب وٽ وٺي ويا ته جيئن هو مون کي راھ راست تي آڻي سگهي پر مفتي صاحب منهنجي پهرئين ئي سوال جو جواب غلط ڏنو ،جڏهن مون سندس ڏنل جواب کي قرآن مان غلط ثابت ڪيو ته مون تي طبرا ۽ لعن طعن ڪرڻ لڳو۔استاد محمد اشرف مفتي صاحب کي چيو سائين اسان همراھ جي اصلاح لاء آيا آهيون کيس گاريون ڏيارڻ جي لاء نه ايئن چئي اسان اتان هليا آيا سون۔ شريف مهر هڪ روڊ ايڪسيڊنٽ ۾ شهيد ٿي چڪو آهي ،گامون ساڳئي نئين عقيدي تي بيٺو آهي جڏهن ته آئون سائين جي ايم سيد جي ڪتاب (جيئن ڏٺو آه مون) ۽ ٻين صوفين ۽ بزرگن کي پڙھڻ کان پوء تصوف جو رستو اخيار ڪيو آهي۔مون کي اهو ٻيو فهم به ملي ويو آهي جيڪو اسان ٽئي دوست ڳوليندا هياسون ۽ اهو فهم آهي پنهنجي قوم کي غلاميء جهڙيء ذلت مان ڪڍي کين آزادي ڏيارڻ ۽ امن عالم،اتحاد انساني ۽ ترقي بني آدم جي لاء پنهنجو ڪردار ادا ڪرڻ۔

5.سياسي سرگرميون: سن 2003 ع ڌاري کان سائين ڊٻائي مهر ، مرحوم رئيس لال محمد راهو ، محمد صديق مگسي ، شريف مهر ،گامون مهر ، سائين بخش رند،وڏيرو مولا بخش ڪيريو ۽ ڪجهه ٻيا دوست جن ۾ آئون به شامل هيس گڏجي هر چنڊ جي چوڏهين رات پٽ ڪچهري ڪرائيندا هئا جن ۾ شاعري ،راڳ رنگ به ٿيندو هو پر انهن ڪچهرين ۾ سنڌي سماج جو پٺتي هجڻ، تعليم جي تباهي ، ماڻھن ۾ احساس محرومي ، وڏيرا شاهي جو ناسور ، ڪارو ڪاريء سميت سماجي بيمارين جي حل جي لاء ڪجهه ڪرڻ تي صلاحون ۽ بحث ڪيو ويندو هو۔ اسان کي بيماريء جي خبر هئي پر اهي بيماريون ڇو پيدا ٿيون آهن انهن کان اسان اڻ ڄاڻ هياسين ۽ سڀ دوست اصل ذميوار رياست جي بجاء سڄو الزام وڏيرا شاهيء تي ڏيندا هئاسين۔ ڪافي سال هر مهيني ساڳيون ڳالهيون دهرايون وينديون هيون ۽ ساڳيا سور رنا ويندا هئا پر انهن جي خلاف جدوجهد ڪرڻ جو نه ڪو پليٽ فارم هو نه وري ڪو لائحه عمل جنهن جي ڪري اهي ڪچهريون سماجي مسئلن طرف ڌيان ضرور ڇڪرائينديون هيون باقي انٽر ٽينمينٽ ۽ نالي ڪڍرائڻ کان سواء انهن مان ڪو خاص لاڀ حاصل نه ٿي سگهيو ۽ آهستي آهستي اهي ڪچهريون مذهبي رنگ ۾ تبديل ٿيڻ لڳيون جڏهن سائين عزيز الله ٻوهيو صاحب انهن ڪچهرين ۾ شرڪت ڪرڻ لڳو۔ڪافي وقت مون اهي به ڪچهريون اٽينڊ ڪيون جن وٽ به صرف ٿيوري هئي پر ڪا به لائين يا پريڪٽيڪل نه هو جنهن ڪري اهي ڪچهريون به تعليم تائين محدود رهيون۔ 2005ع ۾ سنڌ يونائيٽڊ پارٽي جو اڳواڻ محترم سائين زين شاھ ساگر نياز لاشاري جي معرفت اسان جي ڳوٺ آيو ۽ ڳوٺاڻي ڪچهري ڪئي جتي يونٽ به کوليائون ۽ نياز لاشاري بغير اعتماد ۾ وٺڻ جي منهنجو نالو به ميمبر طور لکرايو اها ڪنهن به پارٽيء ۾ منهنجي پهرين ميمبر شپ هئي پر ان کان پوء وري ڪڏهن نه ڪا ميٽنگ ٿي نه ڪو سياسي ڪلاس هليو۔ جون يا جولاء سن 2006ع ۾ ڳوٺ مٺا خان جوکيو ۾ شاعر سائين فيض جوکيو جي ٻين ورسي ملهائي وئي جنهن ۾ سنڌ جا نالي وارا شاعر ۽ اديب آيل هئا۔ ان پروگرام ۾ مون کي نظم پڙھڻ جي لاء گهرايو ويو۔ اصلاحي نظم پڙهي آئون اسٽيج تان هيٺ لٿس ته ماڻھن اسٽيج تي ڪجهه پرچيون موڪليون جن ۾ مون کان وڌيڪ شاعري ٻڌڻ جي گهر ڪئي وئي هئي۔مون کي پروگرام جي صدارت ڪندڙ کان اجازت وٺي ٻيهر اسٽيج تي سڏيو ويو۔ جڏهن شاعري پڙهي هيٺ لٿس ته سائين فيض جوکيو جي ڀاء اچي ٻڌايو ته اوهان سان ڪجهه دوست ملڻ ٿا چاهين ۽ مون کي اوڏانهن وٺي ويو۔اهي ڏهاڪو کن دوست هئا جيڪي ڏاڍي حب مان مليا۔هڪ دوست تعارف ڪرائيندي چيو ته آئون روشن بوزدار آهيان ۽ جيئي سنڌ متحدا محاذ جو وائيس چيئرمين آهيان۔ منهنجي شاعري جي تعريف ڪري پوء روشن سوال پڇيو ته اوهان سميع الله ڪلهوڙي جو نالو ٻڌو آهي؟ نه سائين (مون وراڻيو) روشن : ڀلا اوهان شفيع محمد برفت يا جسمم جو نالو ٻڌو آهي؟ نه سائين (مون وراڻيو) روشن : سائين آصف شهيد سميع الله ڪلهوڙو اسان جي پارٽي جو سينيئر وائيس چيئرمين هو جنهن کي پاڪستان آرمي گذريل سال شهيد ڪري ڇڏيو ۽ شفيع برفت اسان جي پارٽي جو چيئرمين آهي جيڪو ڪيترن سالن کان روپوش آهي۔اسان جي پارٽي سنڌو ديش جي آزادي جي لاء سائين جي ايم سيد جي فڪر تحت جدوجهد ڪري رهي آهي۔ روشن بوزدار جي سواء سائين جي ايم سيد جي نالي کان سواء ٻي ڪا به ڳالھ سمجهه ۾ نه آئي هئي۔ ڪجهه دير ڪچهري ڪرڻ کان پوء مون کانئن موڪلايو ته روشن مونکي چيو ته سائين اوهان سان ملاقات ٿيندي رهندي،آئون روپوش ھجڻ جي ڪري روشن بوذدار سڏرائيندو آهيان باقي منهنجو اصل نالو حافظ زين ڀٽو آهي. جون2007ع ۾ منهنجو ڀٽ شاھ درگاھ تي وڃڻ ٿيو جتان مونکي فقيراڻو يا ملنگن جو ويس هٿ ڪرڻو هيو جنهن ڪري مون کي ٽي ڏينهن لطيف سرڪار جي اڱڻ تي لڳي ويا۔ اتي مون کي سانگهڙ شهر جو هڪ همراھ مليو جنهن پنهنجو تعارف امام الدين نالي ڪرايو ۽ چيائين آئون سانگهڙ ۾ ڪاري ٽانڪي وٽ رهندو آهيان اگر ڪو به زماني جو ڪم پئجي وڃئي ته حڪم ڪجان۔ مون کانئس پڇيو ته ڇا ڪندو آهين؟ ٺاٺارو آهيان ۽ جست جا ٿانو کپائيندو آهيان (امام الدين ٻڌايو) مون کانئس موبائيل نمبر ورتو ۽ ٽئي ڏينهن هڪ ساميء کان وڏيم منٿن ۽ پيسن جي عيوض گيڙو پٽڪو ۽ هڪ پراڻو وڳو،وڏو جست جو وٽو مليو جنهن کان پوء آئون ڀٽ شاھ کان سڌو پنهنجي محبوب سياڻيء جي شهر پهتس ۽ سندس علائقي ۾ پندرهن ڏينهن تائين فقير بنجي در در رلندو رهيس ۽ سدائون ڏيندو رهيس پر قسمت ۾ مسلسل وڇوڙو لکيل هو سو وري به من جي مراد پوري نه ٿي سگهي ۽ واپس ڳوٺ موٽي آيس۔ 2008ع ۾ اسٽيشن روڊ تي سنڌ يونائيٽڊ پارٽي پاران هڪ وڏي جلسي جو اهتمام ڪيو ويو هو ۽ ڪنهن دوست چيو هل ته جلسو به ٻڌي اچون ۽ توکان شاعري به پڙهايون۔ آئون ساڻس گڏ سڪرنڊ آيس جتي ٻن سالن کان پوء حافظ زين ڀٽو مليو جيڪو جلسي کان پوء مون کي سڪرنڊ کان ٿورو ٻاهر سندس ڪنهن دوست جي ڳوٺ وٺي آيو هيء ساڻس منهنجي ٻي ملاقات هئي۔ اها رات ڪافي دير تائين سنڌ جي موجوده حالتن، قومي غلاميء، جسمم جي پاليسي، جسمم قيادت جي رياستي ادارن پاران گمشدگي سميت رهبر سنڌ سائين جي ايم سيد جي فڪر تي طويل ليڪچر ڏنو ۽ مون کي قومي تحريڪ جي لاء پنهنجو ڪردار ادا ڪرڻ ۽ قومي انقلابي شاعري سرجڻ جي لاء چيو۔ ان ڪچهريء منهنجي دل ۽ دماغ تي ڪافي گھرا اثر ڇڏيا ۽ سندس ليڪچر کان پوء سمجھ ۾ اچڻ لڳو ته سنڌي سماج جي ويڳاڻپ، انتشار، انارڪيء ۽ حالت زار جي ذميوار وڏيرا شاهي نه پر پنجاب ۽ رياستي مشينري آهي۔ ان رات جي ڪچھريء کان پوء مون عوامي آواز جا آرٽيڪل ۽ سائين جي ايم سيد جا ڪتاب پڙھڻ شروع ڪيا جن ٿوري ئي عرصي ۾ منهنجي ذھن جون سموريون ڳنڍيون کولي ڇڏيون ۽ حقيقت ظاهر ۽ چٽي نظر اچڻ لڳي ۽ جيئي سنڌ متحدا محاذ ۾ ڪم ڪرڻ جو حتمي فيصلو ڪري ورتم۔ ڪجهه وقت کان پوء وري ناز باغ قاضي احمد ۾ حافظ زين ڀٽو مليو جنهن کي جسمم ۾ ميمبر شپ ڏيڻ جو چيم پر حافظ چيو تون صرف ڌرتيء جي لاء لک ۔ پر آئون جسمم جو ميمبر ٿيڻ ٿو چاهيان (مون اسرار ڪندي چيو) حافظ زين: اسان ميمبر ان کي ڪندا آهيون جيڪو هر روز گهٽ ۾ گهٽ چار ڪلوميٽر پيدل هلڻ جو عادي هجي، گهٽ کاڌو کائيندو هجي ۽ اوجاڳن ڪرڻ جو عادي هجي۔ سندس اهي ٽئي شرط ٻڌي مون مرڪي ڏنو،ڇو ته سياڻيء جي عشق ۾ آئون انهن ٽنهي ڳالهين جو عادي ٿي چڪو هيس ۽ ڄڻ ته عشق مجاز مون کي قومي عشق جي لاء پچايو پئي ۽ منهنجي تربيت پئي ڪئي۔ آئون انهن ٽنهي ڳالهين جو اڳ ۾ ئي عادي آهيان (مون مرڪي چيو) حافظ زين: وقت اچڻ تي ميمبر به ڪنداسين توکي تيسين تون اسٽڊي ڪر ۽ ٻين پارٽين کي به ڏس۔ ڪافي دير ڪچھري ڪرڻ کان پوء ھڪٻئي کان موڪلايو سين۔ ان ملاقات کان پوء اسان جون تڪڙيون تڪڙيون ملاقاتون ٿيڻ لڳيون۔ هڪ ڀيرو نواب شاھ اسپتال جي هڪ دوست قاسم ڪيريو جيڪو لانڍيء جو رهواسي هو ٻڌايو هو ته سياڻيء جي سانگهڙ ضلعي ۾ شادي ٿي چڪي آهي سو هن ڀيري جون جولاء 2008ع جي گرمين جي موڪلن ٿيڻ شرط سانگهڙ روانو ٿيس۔ ڪاري ٽانڪي وٽ پھچي امام الدين (جيڪو گذريل سال ڀٽ شاھ ۾ مليو هو) جي پڇا ڪيم۔اتفاق سان سندس گهر بلڪل سامهون هيو سو همراھ وڃي کيس سڏي آيو۔ جوان مون کي ڏسڻ شرط نه فقط شڪل مان به سڃاتو بلڪه نالو وٺي ڀاڪر پائي مليو۔ تڙ ڪرائي خدمتون چاڪريون ڪري رات جو حال احوال ورتائين۔ امام الدين: ادا ٻڌايو حال احوال ڪيئن اچڻ ٿيو؟ يار تنهنجي مدد جي ضرورت آهي (کيس چيم) امام الدين : حڪم ڪر سائين۔ يار مون کي تو وانگر ٺاٺارو ٿي ٿانو کپائڻا آهن (مون کيس چيو) امام الدين : ڇو؟؟ (ٽھڪ ڏيندي) يار موڪلون آهن ۽ هر سال موڪلن ۾ ڪانه ڪا مزدوري ڪندو آهيان سو هن ڀيري سوچيم ٺاٺارو ٿي ڏسان،تو ئي ته چيو هيو ته وڏي بچت ٿي ٿئي۔ امام الدين: اصل سبب ٻڌائيندي ته پوء تنهنجي مدد ڪندس ورنه نه ۽ مون سان ڪوڙ نه ڳالهائجان۔ (مون ڏي غور سان نهاريندي چيائين) ڪنهن ماڻھوء جي ڳولا آهي۔ (ٿڌو ساھ کڻندي چيم) امام الدين : دشمنيء جو معاملو آهي ڇا؟ (سنجيدگي مان پڇيائين) نه يار عشق جو معاملو آهي۔(ڏانهنس نهاريندي چيم) وڏا وڏا ٽھڪ ڏيئي کلندي تاڙو ملائي چيائين حڪم کپي تنهنجو يار واهجي مدد ڪندس۔ ٻئي ڏينهن فجر مهل چانھ کڻي آيو ۽ صلاح ڏنائين ته ٽي ڏينهن تون مون سان گڏ هل ته جيئن ڌنڌي جا اصول، نئين ٿانو ۽ ڀڳل پراڻي ٿانو جي مٽا سٽا ۽ انهن جي قيمت سمجهي سگهين ۽ ٻھراڙيء جي ڪتن کي منهن ڏيڻ به سکين سگهين۔ ڪتن جي ڳالھ ٻڌي پريشان ٿي ويس ۽ هو به سمجهي ويو سو چيائين پريشان نه ٿيء آئون تو سان گڏ آهيان۔ چانھ پي اسان نڪري پياسين۔جتان ٿانو کڻندو هو ان دڪان واري کي چيائين اڄ ٻيو همراھ به گڏ آهي سو ان لاء به ٿانو ڏي پيسا پوء ڏسنداسين۔ مون چيو پيسا آئون ڪيش ڏيندس مون وٽ آهن۔ 9000 جا مون ٿانو کنيا ۽ پاڻ پنهنجو سامان کنيائين ۽ هڪ لڪڻ ڏئي سمجهايائين ته ڪتا پويان لڳن ته پوئتي لوڻو نه هڻجان ۽ اڳتي هلندو رهجان ۽ هڪ هٿ ٿانون واري ٻوري ۾ وجهي ٻئي هٿ ۾ لڪڻ جهلي هن طريقي سان هٿ کي هلڪو هلڪو چوريندو اچجانء ڪتا ويجهي نه ايندا۔ هن لڪڻ هلائڻ جو خاص طريقو ڏسيو ۽ ڪجهه دير پريڪٽس به ڪرايائين ان کان پوء مطمئن ٿي اسان جهول نڪري وياسين۔ ٻھراڙيء جي هڪ ڳوٺ ۾ اٺ ڏھ ڪتا پويان لڳا جيڪي ڏاڍا خوفناڪ هئا جن کي ڏسي امام الدين جون سڀ نصيحتون ۽ ٻڌايل اٽڪلون وسري ويون ۽ ڪتن اچي ڪپڙن ۾ وات هنيو۔اهڙي ڪنڊيشن ۾ مون ٿانو جي ٻوري کي کڻي ڪتن مٿان اڇلايو ۽ ڏنو پيرن تي زور۔ ڪتا منهنجي ڪڍ لڳا ته امام الدين به هڪلون ڪري ٿانو رکي ڪتن کي ڊوڙائڻ جي ڪئي ۽ ٿانو جو هوڪو ٻڌي ڪجهه عورتون به ٻاهر نڪتيون هيون انهن به هڪل هوڙ ڪئي تڏهن ڪتن جان ڇڏي۔ امام الدين چيلھ تي هٿ ڏئي مون ڏي نهارڻ لڳو جڏهن ته انهن ادڙين ٺھڪ ڏئي امام الدين کان پڇيو ته هي ڪورو ڄٽ ڪٿان کڻي آيو آهين؟ امام الدين کين چيو اڄ پهريون ڏينهن اٿس سکي ويندو پوء مون کي چيائين ته مون توکي ڇا سمجهايو هو؟ يار ڪتا ڪيڏا قدآور ۽ خوفناڪ هئا جن کي ڏسي مون کان تو واريون ڳالهيون وسري ويون پر هاڻي اڳتي خيال ڪندس۔ (مون سهڪندي ۽ مرڪندي کيس يقين ڏياريو) امام الدين به ٽھڪ ڏيڻ لڳو۔ ٽن ڏينهن ۾ آئون ڪافي حد تائين شين کي سمجهي چڪو هيس، خاص ڪري ٽئي ڏينهن سموري خريد و فروخت جي ڊيلنگ منهنجي حوالي ڪري پاڻ ماٺ رهيو هيو۔ شام جو واپسي ڪئي سون ته هو ڪافي مطمئن نظر پئي آيو۔ شام جو هن مختلف گراهڪن جي نفسيات تي هڪ چڱو ڀلو ليڪچر ڏنو۔ ٻئي ڏينهن فجر جي آذان مھل چانھ پي الڳ الڳ نڪري پياسين ۽ ايئن باقائده مون سياڻيء جي ڳولا شروع ڪري ڏني۔ هفتو گذريو ته ڪجهه بوريت محسوس ڪرڻ لڳس ڇو ته امام الدين ويچارو اڻ پڙهيل اٻوجھ قسم جو نوجوان هو ۽ رات ڏينهن هن وقت ڪچھريء جي لاء فقط هڪ ئي موضوع هيو ۽ اهو هو ٿانو کپائڻ جو۔ سانگهڙ ۾ ايندي ويندي هڪ آفيس تي روز نظر پوندي هئي جيڪا هڪ اخبار جي آفيس هئي پر خاص ڳالھ اها هئي ته ان سائن بورڊ تي جيڪو نالو لکيل هوندو هو اهو مون کي ٻڌل ٿي لڳو پر مسلسل ياد ڪرڻ جي باوجود ياد نه پئي آيو ته اهو نالو ڪٿي ٻڌو اٿم۔ سائن بورڊ تي (الفقراء اخبار ۽ عاجز منگي) لکيل هو۔ بوريت کان بچڻ جي لاء ھڪ ڏينهن فيصلو ڪيم ته سائين عاجز منگي صاحب سان اڄ لازمي ملندس۔ واپسيء تي آفيس جي ٻاهرئين گيٽ کان اندر گهڙي آفيس جي در وٽ لڪڻ ۽ ٿانون جو ٻورو لاهي رکيم ۽ ٽوال جو پٽڪو لاهي ٽوال ڪلهي تي رکي آفيس ۾ داخل ٿيس۔ ڪمري ۾ هڪ نوجوان ۽ سفيد وارن وارو هڪ اڌڙوٽ مگر پرڪشش شڪل رکندڙ همراھ ويٺا هئا۔ مون کين سلام ڪيو،انهن مون تي سرسري نظر وڌي ۽ اڌڙوٽ مون کي ڪرسيء تي ويهڻ جو اشارو ڪري پاڻ ان نوجوان سان ڳالهائڻ ۾ مصرورف ٿي ويو۔ تقريبن پندرهن منٽ سندن ڳالھ ٻولھ هلندي رهي ان کان پوء اهو نوجوان آفيس مان ٻاهر نڪري ويو ۽ اڌڙوٽ شخص ڪجهه ڪاغذ پڙھڻ لڳي ويو جنهن ۾ کيس ٻيا به ڏھ منٽ کن لڳي ويا۔ آئون محسوس ڪرڻ لڳس ته شايد مون کي هتي نه اچڻ گهرجي ها ۽ اهو سوچي اٿڻ جي ڪيم ته اڌڙوٽ اوچتو مون ڏي متوجه ٿيو ۽ چيائين جي بابا؟ سائين مون کي سائين عاجز منگي صاحب سان ملڻو آهي (مون کيس چيو) اڌڙوٽ: جي بابا عاجز منهنجو نالو آهي حڪم ڪر سائين منهنجو نالو آصف جوڻو آهي (مون کيس پنهنجو تعارف ڪرايو پر اڃان شهر جو نالو نه ورتو هيم ته پاڻ پڇيائين شاعر آصف جوڻو قاضي احمد وارو؟) جي سائين۔

ڇرڪ ڀري ڪرسيء تان اٿي ميز کان ڦري مون سان وڏو ڀاڪر پائي اچي مليو ۽ معافي وٺندي چيائين ته مون سمجهيو هتان جو ڪو لوڪل همراھ آهي ۽ ڇوڪري ۾ ڪو ڪم اٿس۔

سائين عاجر نوجوان کي سڏ ڪيو۔ نوجوان اندر اچي چيو جي سائين حڪم ڪيو۔ سائين عاجر : بابا جلدي فروٽ به وٺي اچ ۽ چانھ به پيار۔ نوجوان جي سائين چئي ٻاهر هليو ويو۔ سائين عاجر خير و عافيت پڇا ڪرڻ کان پوء ميرن ۽ پگهر هاڻن ڪپڙن ڏي اشارو ڪندي پڇا ڪئي ته بابا هي ڇا آهي؟ سائين آئون بنيادي طور استاد آهيان پر هر سال گرمين جي موڪلن ۾ فارغ ويھڻ بجاء ڪو پورهيو ڪري پنج رپيا ڪمائڻ کي بهتر سمجهندو آهيان ۽ هن ڀيري سانگهڙ ۾ هڪ دوست سان گڏ ٿانو پيو کپايان۔(مون سائين عاجز کي اڌ سچ ۽ اڌ ڪوڙ هڻي ٻڌايو۔) سائين عاجز: زبردست، رهائش ڪٿي اٿو ۽ منهنجي لاء ڇا حڪم آهي؟ سائين جيئن ته آئون هتي اوپرو آهيان ۽ بوريت کان بچڻ جي لاء سوچيم اوهان سان ملي ڪجهه شاعر دوستن سان ڪچهرين جو ماحول جوڙجي جيئن بوريت کان بچي سگهجي۔ سائين عاجز: سٺو ٿيو جو اوهان آيا آهيو آئون اوهان کي دوستن سان ملايان ٿو۔ ٿوري دير ۾ نوجوان فروٽ وٺي آيو،فروٽ کائي،چانھ پي اسان اٿياسين۔ مون ٿانون جو ٻورو مٿي تي رکيو ۽ هڪ هٿ ٻوري ۾ ٻيو هٿ سائين عاجز صاحب پنهنجي هٿ ۾ ورتو ۽ ڪاري ٽانڪي وٽ وٺي آيو جتي هڪ ننڍڙي هوٽل جي ڀرسان ڀاڄيء وارو هوندو هو جنهن جو نالو نبي بخش لانڊر هو ان وٽ پهتاسين۔ منهنجي رهائش به اتي ئي هئي ۽ آئون اڪثر اخبار نبي بخش لانڊر وٽ اچي پڙهندو هيس۔ سائين عاجز منگي نبي بخش لانڊر وٽ ويٺل هڪ پنجونجاھ سالن کن جي شخص سان منهنجي ملاقات ڪرائي جنهن جي اکين جي نظر ڪمزور هئي ان ڏي سائينء اشارو ڪري چيو ته هي دوست شاعر سائين قاسم (پٿر) سومرو صاحب آهي ۽ سندس هڪ شعري مجموعو ڇپجي چڪو آهي ۽ منهنجو تعارف ڪرائيندي چيائين هي سائين آصف جوڻو آهي۔ سائين قاسم سومرو صاحب ۽ آئون هر روز هڪٻئي کي ڏسندا هياسين پر تعارف نه هجڻ جي ڪري ڪچهري نه ٿي سگهي هئي۔ ڪجهه دير اتي سائين قاسم سان ڪچهري ڪري سائين عاجز مون کي ڪجهه ڪتاب پڙھڻ لاء ڏنا ۽ چيو ته ٿانو ۽ ڪتاب ڇڏي اچو ته اڳتي ٻئي دوست ڏي هلون۔ آئون ڪتاب ۽ ٿانو ڪمري ۾ ڇڏي آيس ان کان پوء ساڳئي ئي روڊ تي پنهور ڪالوني ۾ آياسين جتي سائين عاجز هڪ گهر جي گهنٽي وڄائي۔چند لمحن ۾ هڪ ٽيهن سالن کن جو نوجوان نڪري آيو جنهن اسان کي ڀليڪار ڪري بيٺڪ جو دروازو کوليو ۽ اسان کي اندر اچڻ جو چيو۔ اسان ڪمري ۾ وڃي ويٺاسين جتي سائين عاجز ان دوست جو تعارف ڪهاڻيڪار سائين نور خان عادل پنهور طور ڪرايو ۽ کيس منهنجو به تعارف ڪرايائين ۽ سائينء عاجز سائين نور خان کي پارت ڪئي ته هن دوست کي ٽائيم ڏيندا ڪيو۔ چانھ پي ڪجهه دير ڪچهري ڪري اسان موڪلائي روانا ٿياسين ۽ مون واري ڪمري وٽ اچي سائين عاجز مون کي تسلي ڏيندي موڪلايو ته هتي هر هفتي ادبي سنگت جون ويهڪون ٿينديون آهن هاڻي اوهان کي به دعوت ڏبي ۽ وڌيڪ دوستن سان به ملاقات ڪرائبي،ايئن چئي سائين عاجز روانو ٿي ويو۔ ٿانون کپائڻ دوران هڪ ڏينهن شاهپور چاڪر آيل هيس ته هڪ شاعر سائين رضا ڏاهريء ڏسي ورتو جيڪو منهنجو سٺو دوست به هو۔ هو حيران ٿي ويو ۽ مون کي پنهنجي ڳوٺ وٺي ويو جتي حيران ٿيندي پڇيائين ته هي ڪهڙا حال ڪيا اٿئي ۽ ڇا پيو ڪندو وتين؟ مزدوري (مون کيس چيو) سائين رضا : مون کي تنهنجي عشق جي قصي جي خبر پئي آهي ۽ اها به خبر اٿم ته گذريل 12 سالن کان تون کيس ڳوليندو رهيو آهين پر جيتري قدر مون کي خبر پئي آهي ته تنهنجي محبوبه ته فلاڻي شهر جي آهي پوء تون کيس هتي ڇو پيو ڳولين؟ بس سائين جيڪو جتي جو ڏس ٿو ڏئي آئون اتي پهچيو وڃان ته من ديدار ٿي پئي۔ سائين رضا ڏاڍي خدمت چاڪري ڪئي ۽ چيو ته تنهنجي عشق جو قصو ٻين کان ٻڌو اٿم اڄ تنهنجي زباني ٻڌڻ ٿو چاهيان۔ مون کيس 12 سالن جو قصو بيان ڪري ٻڌايو۔ سائين رضا منهنجي ڏکن جي ڪهاڻي ٻڌي ۽ ڏکارو ٿي ويو ۽ مون کان پڇيائين ته تنهنجي محبوب جو نالو ۽ ذات ٻڌاء؟ ان شهر ۾ ادا خدا بخش جو تمام گهڻو واسطو آهي متان ڪٿان ڏس پتو ملي پوي۔ مون جڏهن سياڻيء جو نالو ۽ ذات ٻڌائي ته ذات ٻڌڻ شرط چيائين ادا جو به ان ذات جي ماڻھن سان گهرو واسطو آهي آئون کيس چوان ٿو ته معلومات وٺي۔ سائين رضا کيس حال احوال ڏنو۔ اتفاق سان سائين خدا بخش ٻئي ڏينهن صبح جو سياڻيء جي شھر وڃڻو هو سو ٻئي ڏينهن شام جو اچي ٻڌايائين ته سياڻيء جي فلاڻي ماڻھوء سان شادي ٿي چڪي آهي ۽ ٽي ٻار اٿس ،هن وقت حيدرآباد رهندا آهن۔ ٻئي ڏينهن آئون کانئن موڪلائي روانو ٿي ويس ٻن مهينن ۾ مون ضلعي سانگهر جا ٻه سؤ کان وڌيڪ ڳوٺ پيدل گهميا ۽ ٿانون کپائڻ جي بهاني سان سانئڻ سياڻيء کي ڳولڻ جي ڪوشش ڪئي پر ناڪام رهيس۔ اڪثر طور تي عورتون منهنجا ٿانو چوري ڪري وينديون هيون پر مون کي خبر نه پوندي هئي۔ سانگهڙ ۾ انهن ٻن مهينن دوران ڪافي ادبي ويهڪن ۾ شرڪت ڪيم جتي ناليوار شاعر ۽ اديب دوست مليا جن ۾ سائين امر لغاري ،استاد نظاماڻي ،مير حسن مري، نسيم بلوچ ،عظيم رونجهو،سائين قاسم پٿر،نور خان عادل ۽ ٻيا دوست شامل هئا ۽ قوم پرست اڳواڻ ڊاڪٽر مير عالم مري جو هڪ ليڪچر به ٻڌم۔ ٻن مهينن جي ڳولا کان پوء امام الدين کان موڪلائي ڳوٺ موٽي آيس۔ 2008ع جي پڇاڙي يا 2009? جي شروعات ۾ حافظ زين ڀٽو نسيم نگر حيدر آباد ۾ هڪ سياسي مظاهري ۾ شرڪت جي لاء مون سميت دوستن جي وين ڀرائي وٺي ويو۔ هي پروگرام جيئي سنڌ قومي محاذ (آريسر صاحب) جو هو جنهن ۾ نسيم نگر چوڪ تي پوليس ۽ قانون لاڳو ڪندڙ ادارن طرفان ريلي تي آنسو گيس ۽ لاٺي چارج ڪري مظاهرين کي منتشر ڪرڻ جي ڪوشش ڪئي وئي ۽ جسقم چيئرمين سائين عبدالواحد آريسر ۽ جسقم جي سينيئر وائيس چيئرمين سرائي قربان کهاوڙ سميت ڪافي ڪارڪنن ۽ اڳواڻن کي گرفتار ڪيو ويو پر ڪارڪن رڪاوٽون ٽوڙي ٽيڪنيڪل ڪاليج پهچڻ ۾ ڪامياب ٿي ويا ۽ ڪامياب ريلي ڪڍي ڏيکاريائون توڙي جو اتي به ڪارڪنن ۽ پوليس ۾ مسلسل چڪريون ٿينديون رهيون۔ هي سياسي پروگرام پهريون پروگرام هو جنهن ۾ مون شرڪت ڪئي هئي۔ 2009ع ۾ گرمين جي موڪلن ٿيندي ئي هر سال جيان سياڻيء جي ڳولا لاء نڪرڻ جو سوچيم ۔ سياڻيء کان وڇڙئي ظاهري طور ته تيرهن سال گذري چڪا هئا پر مون کي سندس وڇوڙي ۾ گذريل هڪ هڪ ڏينهن سال برابر لڳندو هو۔ 2000ع کان پوء توڙي جو منهنجي زندگي آهستي آهستي معمول تي اچي وئي هئي پر سچ ته اهو هيو ته انهن تيرهن سالن ۾ کيس هڪ پل به کيس وساري نه سگهيو هيس۔ سندس وڇوڙو اندر کي وڍيندو رهندو هو ۽ بي چيني ختم ٿيڻ جو نالو ئي نه پئي ورتو۔ ڏک ته پيدا ئي ڄڻ منهنجي لاء ٿيا هيا۔ دوست ڪڏهن ڪڏهن سوال ڪندا هئا ته آخر ڪيسين تائين کيس ڳوليندو رهندين؟ کيس جواب ڏيندو هيس ته جيسين جيئرو آهيان تيسين سندس جي ڳولا ڪندو رهندس۔ گرمين جي موڪلن ٿيندي ئي گهران تيار ٿي نڪري پيس ۽ قاضي احمد ۾ منهنجي دوست ڊاڪٽر عبد السلام ميمڻ جي ڪلينڪ هئي ان وٽ پهتس۔ ڪجهه دير هتان هتان جي ڪچھري ڪري چانھ پي کانئس موڪلايم ۽ ڪلينڪ مان نڪتس پئي ته ڊاڪٽر عبد السلام جو هڪ دوست مليو جنهن جي پويان ساڻس منهنجي به دوستي ٿي وئي هئي جنهن جو نالو بنگل خان هو۔ بنگل مون کي ڏسي خوش ٿيندي چيو ته سائين سٺو ٿيو ملي وئين،منهنجي ڇوڪري عشرت حسين توکي ياد پئي ڪيو ۽ چيائين ته چاچا آصف ملي وڃئي ته وٺي اچجانس سو اڄ توکي ڪاڏي به ڪونه ڇڏبو ۽ منهنجي ڳوٺ هلبو۔ منهنجي ڪڇڻ کان اڳ ۾ ئي ڊاڪٽر عبدالسلام وڏو ٽھڪ ڏيندي چيس ته اگر ڳوٺ ڪو مائٽ مري وڃيس ته هي هنن ٻن مھينن ۾ سندس تڏي تي به ڪونه ويھندو سو ٿو هلي تنهنجي ڳوٺ۔ بنگل خان : ڇو ڇو ڇو؟؟؟ اهڙو ڇا ٿيو آ جو نه هلندو، اڄ ته سھڻي کي ڪاڏي ڪونه ڇڏبو۔ ڊاڪٽر : مذاق نه ٿو ڪيانء آئون بنگل خان سان ڀاڪر پائي مليس ۽ ويھي رهيس سوچيم ٿوري دير ساڻس ڪچھري ڪري پوء ٿو نڪران۔ بنگل هڪ ڀيرو ٻيھر ڊاڪٽر کان پڇا ڪئي ته ڇا معاملو آهي ۽ ڇو ڪونه هلندو؟ ڊاڪٽر کيس چيو ته بابا وڃي پيو يارڙيء کي ڳولڻ ۽ هر سال هي ٻه مهينا ان جي ڳولا جا آهن سو لفٽ نه ملنديئي۔ بنگل خان: اڙي هان ابا ،اها ٿوري ٿوري خبر اٿم ته همراھ سان وڏي ويڌن آ پر ٻڌ ته ڀلا ڪير ۽ ڪٿان جي آهي ڇوڪري؟ ڊاڪٽر ٻڌايس فلاڻي شهر جي آهي۔ بنگل خان: پوء ته ڪم سفا سولو آهي ايئن چئي بنگل موبائيل ڪڍي هڪ نمبر ملايو ۽ موبائيل جو لائوڊر کولي ڇڏيو۔ ٿوري دير رنگ وڄڻ کان پوء آواز آيو( هيلو بابا اسلام عليڪم يا علي مدد) بنگل خان : وعليڪم السلام پير مولا علي مدد۔ خير و عافيت معلوم ڪرڻ کان پوء بنگل پڇا ڪيس ته ڪاٿي آهين رئيس؟ ڳوٺ بابا (اڳئين دوست جواب ڏنس) بنگل خان : هڪ ڪم آهي بابا۔ فون وارو: حڪم ڪر بابا بنگل خان: منهنجو هڪ پيارو دوست آهي جيئن تون پيارو آهين ايئن ۽ هن کي توڏي موڪليان پيو تنهنجي شهر پهچي توسان رابطو ڪندو ان کان حال احوال وٺي سندس ڪم ڪر ۽ ها ٻڌ ڪم هر صورت ۾ ٿيڻ گهرجي ۽ جيسين ڪم نه ٿئي ڪاڏي وڃڻ نه ڏجانس بلڪه ڪمري ۾ بند ڪري يا ٻڌي ڇڏجانس ڪٿي ڀڄي نه وڃئي۔ فون وارو همراھ: بابا حاضر ڀلي موڪل دوست کي،ڪوشش ڪنداسين ته ڪم ڪري ڏجيس۔ ان کان پوء بنگل خان هڪ نمبر لکي ڏنو ته هن ماڻهوء سان فلاڻي شهر ۾ وڃي رابطو ڪجان ۽ منهنجو حوالو ڏجانس اميد آهي ته خبر چار پئجي ويندي همراھ جي۔ بنگل خان جيڪو شھر ٻڌايو اهو سياڻي جي شهر جي بلڪل ويجهو ئي هيو۔ آئون کانئن موڪلائي ان شهر پهتس ۽ اسٽاپ تان ئي ان همراھ کي فون ڪري بنگل جو حوالو ڏنم ۽ کيس ٻڌايم ته اسٽاپ تي ويٺو آهيان۔ همراھ چيو پار پتا ڏي ته ڪهڙي رنگ جا ڪپڙا پاتل اٿئي؟ کيس پنهنجا پار پتا ڏئي اتي هڪ بينچ تي ويھي رهيس۔ ڏهن منٽن ۾ ٻه همراھ موٽر سائيڪل تي چڙھي پهتا ۽ ڪال ڪيائون، مون ڪال اٽينڊ ڪرڻ بدران هٿ مٿي ڪيو ۽ هو مون سان اچي مليا ۽ مون کي ساڻ وٺي هڪ هوٽل تي اچي ويٺا۔ ماني کائي چانھ پي اٿڻ لڳا ته مون کين روڪي ورتو ۽ چيو ته مون کان اڳ ۾ حال احوال وٺو۔ هنن چيو ته ڳوٺ هلي حال احوال ڪيون ٿا پر مون کين زبردستي روڪي چيو ته ڪم ڪهڙو آهي اهو اوهان کي ڳوٺ هلي ٻڌائيندس پر مون کي هتي صرف ايترو چوڻو آهي ته ڪم ٿورو سماجي حوالي سان غير مهذب آهي هاڻي سڌي ڳالھ ڪيو ته ڪندؤ يا نه؟ اگر ڪم ڪيو ته ڳوٺ هلون جي نه ته منهنجو هڪ هڪ پل قيمتي آهي۔ همراھن هڪٻئي ڏي نهاري مرڪي ڏنو ۽ تسلي ڏئي چيائون اچو هلون،ان کان پوء شهر کان ٿورو ئي ٻاهر سندن ڳوٺ پهتاسين۔ دوست تمام گهڻي خدمت چاڪري ڪئي ۽ حال احوال ورتائون۔ مون مختصر کين حال احوال ڏنو۔ هن تسلي ڏيندي چيو الله مڙئي ڀلي ڪندو۔ هڪ هفتي مون کي پاڻ وٽ ترسايائون پر مون کي ڪاڏي نڪرڻ نه ڏيندا هئا۔ آخر ستين ڏينهن موٽر سائيڪل تي کڻي ڪاڏي روانا ٿيا۔کين ڪنهن ملاقات جو پروگرام ڏنو هو جنهن سان مليا ۽ ان کي صاف صاف چيائون ته سياڻيء ۾ ضروري ڪم آهي ان جو ڏس پتو ڏي۔ همراھ شايد سياڻيء جو ڪو عزيز هو ان ٻڌايو ته هن جي 9 سال اڳ حيدرآباد ۾ شادي ٿي وئي هئي سو هوء حيدرآباد ۾ رهندي آهي،ٽي ٻار اٿس ۽ مڙس جو نالو فلاڻو اٿس ، ڪجهه مهينن کان امر ڪوٽ شفٽ ٿي ويا آهن جتي سياڻيء جي پنهنجي ڪلينڪ آهي۔ بعد ۾ ان شخص هڪ موبائيل جو نمبر ڏنو ۽ چيائين ته هي نمبر سياڻيء جو آهي۔ اسان سندس ٿورو مڃي کانئس موڪلايو ۽ بنگل خان جي دوست جي ڳوٺ آياسين۔ بنگل جي دوست مون کان پڇا ڪئي ته ڪيئن ٿا سمجهو ته همراھ صحيح معلومات ڏني هوندي يا نه؟ مون کيس چيو ته گذريل سال به هڪ دوست حيدر آباد ۾ شادي ٿي وڃڻ جي ڄاڻ ڏني هئي۔ ٽن ٻارن جو به ٻڌايو هيائين ۽ مڙس جو نالو به اهو ئي ٻڌايو هيائين جنهن ڪري لڳي ته ايئن ٿو ته معلومات صحيح ملي آهي۔ ٽن ڏينهن تائين بار بار نمبر ملائيندو رهيس پر نمبر مسلسل بند هو آخر انهن کان موڪلائي امر ڪوٽ روانو ٿيس۔ منهنجو امر ڪوٽ ۾ ڪو ڄاڻ سڃاڻ وارو ڪونه هيو۔ هڪ مسافر خاني شايد مهراڻ ھوٽل نالو هيس جتي ڪمرو ورتم ۽ ٽن ڏانهن تائين امر ڪوٽ جون ڪلينڪون رلندو رهيس پر ڪابه خبر چار نه پئي۔ سوچيم ته حيدر آباد ۾ ڳولجيس سو ٽن ڏينهن کان پوء امر ڪوٽ کي الوداع ڪري حيدر آباد پهتس۔ ڏيڍ مهينو مسلسل حيدر آباد ۾ ڀٽڪندو رهيس پر هيڏي ساري شهر ۾ کيس ڳولڻ جو مطلب سمنڊ ۾ وڃايل سوئي ڳولڻ جيئن هيو پر پوء به آئون نا اميد ۽ مايوس نه هيس ۽ مون کي يقين هو ته هڪ ڏينهن نيٺ کيس ڳولي لهندس ۽ تيرهن سالن دوران ڪيل ڳولا جا سمورا ٿڪ لھي پوندا۔ اڪثر دوست مون سمجهائڻ جي انداز ۾ چوندا هئا ته يار ايترا سال گذري چڪا آهن هڪ ته هن جي شادي ٿي وئي هوندي ٻيو ته هن کي تون ياد به ڪونه هوندي ان ڪري هن جي ڳولا کي ترڪ ڪر ۽ پنهنجي زندگيء ڏي ڌيان ڏي۔ آئون دوستن کي چوندو هيس ته سندس شاديء سان مون کي ڪو به سروڪار ڪونهي،مون کي هن جي جسم جي ضرورت ٿورئي آهي، مونکي هن سان عشق آهي ،سياڻي منهنجي چاهت آهي، هوء منهنجو جنون آهي۔ منهنجو عشق منهنجي عبادت آهي باقي رهي ڳالھ ته آئون کيس ياد آهيان يا نه ان سان به منهنجو سروڪار ناهي پوء دوستن کي علامه آء آء قاضيء جو ٽرين وارو واقعو بيان ڪري ٻڌائيندو هيس جڏهن علامه آء آء قاضيء ايلسا ڏي خط لکيو هو جنهن ۾ هي لفظ هيا ته (مون کي خبر ناهي ته تون مون کي چاهين ٿي يا نه بلڪه منهنجي لاء اهو ڪافي آهي ته آئون توکي بي انتھا چاهيان ٿو) يا دوستن کي هي شعر ٻڌائيندو هيس ته

        تون مون کي وڻين ٿو اهو آهي ڪافي۔
        مان تو کي وڻان هي ضروري ته  ناهي۔

دوستن کي چوندو هيس ته منهنجي اکين جو عشق آهي بس هڪ پل جي هڪ جهلڪ منهنجي عمر ڀر جا ٿڪ ۽ وڇوڙي جا گهاء ڀريندي سو سندس ڳولا کي ترڪ نه ڪندس۔

            جو دم غافل سو دم ڪافر

دوست چوندا هيا ته تون چريو ٿي ويو آهين هل ته توکي گدو ۾ داخل ڪيون۔

عجيب دستور آ دنيا وارن جو دل جي مريض کي دماغ جي وارڊ ۾ داخل ڪرائڻ ڀلا ڪٿان جي ڏاهپ آهي۔ 17 آگسٽ 2009ع تائين مسلسل نمبر ملائيندو رهيس پر نمبر بند هو آخر پيسن جي ضرورت پوڻ تي مون موبائيل وڪرو ڪري ڇڏي۔ 18 آگسٽ تي ڪنهن دوست کان اڌاري موبائيل وٺي ان ۾ پنهنجي سم وجهي نمبر ملايم ته نمبر کليل هيو ۽ ڪال اٽينڊ ٿي جنهن تي ڪنهن مرد جو آواز آيو جنهن ڪري مون ڪال ڪٽي ڇڏي ۽ ڊاڪٽر سلام ميمڻ جي هڪ دوست ڇوڪري هئي جنهن کي مون ڀيڻ سڏيو هو ۽ کيس منهنجي ۽ سياڻيء جي محبت بابت مڪمل ڄاڻ هئي ان کي چيم ته هن نمبر تي ڪال ڪري ڪنهن طريقي سان معومات وٺ ته هي ڪنهن جو نمبر آهي۔ 20 آگسٽ تي کيس ڪال ڪري کانئس پڇا ڪيم جنهن ٻڌايو ته اهو نمبر سياڻيء جي ڀاء جو هو جنهن کان سياڻيء جو نمبر ورتو به اٿم ۽ سياڻي سان ڪال تي ڳالهائي ڪنفرم به ڪيو اٿم۔ ان کان پوء ان سياڻيء جو نمبر موڪلي ڏنو۔ نمبر ملڻ کان پوء منهنجي دل زور زور سان ڌڙڪي رهي هئي،مون کي يقين ئي نه پئي آيو ته مون آخر سياڻيء جو نمبر هٿ ڪري ورتو آهي۔ نمبر ته ملي ويو پر همت نه پئي ٿئي جو ڪال ڪري ڳالهائي سگهان۔ دل ۾ وهم ۽ وسوسا پيدا ٿيڻ لڳا ته سياڻي سڃاڻندي به الائي نه ڇو ته ڪنهن کي وسارڻ جي لاء ڪجهه پل ئي ڪافي هوندا آهن ۽ هتي ته تيرهن سال گذري چڪا هئا جيڪي ڪنهن کي وسارڻ جي لاء تمام گهڻا هئا۔ آخر منهنجي همت جواب ڏئي وئي ۽ ڪال نه ڪري سگهيس البته دوست کي موبائيل موٽائي ڏيڻ کان اڳ ۾ هڪ ميسيج ڪيم ۔ ميسيج بلڪل مختصر هو لکيم ته

(سائنڻ سياڻي خوش آهيو؟)

هڪ ڪلاڪ کان پوء ڊاڪٽر سلام ميمڻ کان موبائيل وٺي ناز باغ قاضي احمد آيس جتي هڪ پارڪ ۾ ويهي ڏڪندڙ ھٿن سان سياڻيء جو نمبر ملايم ۽ ڳالهائڻ جي لاء همت گڏ ڪرڻ لڳس۔ هيلو۔۔۔۔فون مان اهو ساڳيو آواز آيو جنهن کي ٻڌڻ جي لاء مون تيرهن سالن عذاب ڪٽيو هو۔ هيلو۔۔۔۔۔هڪ ڀيرو وري هيلو جو آواز آيو۔ جي جي هيلو (مون آخر ڪار سموري جسم جون توانائيون گڏ ڪري چيو پر محسوس ٿيو ته لفظ ڪنهن اونهي کوھ مان ايندا هجن) سياڻي : جي خوش آهيو ؟ ( کانئس پڇيم) سياڻي : ڪير آهين تون ۽ سوير ميسيج ۽ هاڻي ڪال ڪئي اٿئي ڇا مسئلو آ توسان؟ (سياڻييء ڪاوڙ واري لهجي ۾ سوال ڪيو۔ جي مون اوهان کي تيرهن سال ڳوليو آهي تڏهن وڃي اوهان جو نمبر هٿ آيو آهي سو پليز هڪ ڀيرو منهنجي ڳالھ ٻڌو۔ (مون روئڻهارڪي آواز ۾ کيس منٿ ڪندي چيو) پر هن وقت آئون آفيس ۾ آهيان سو اوهان چار بجي ڪال ڪجو (هن ڀيري هن نرم لهجي ۾ چيو) جي ٺيڪ آهي وڏي مهرباني اوهان جي۔ ڪال ڪٽجي وئي۔ڪافي دير تائين منهنجو جسم سن رهيو ڪجهه دير کان پوء جڏهن جسم ۾ ڪجهه توانائي موٽي ته روئڻ اچي ويو ۽ پندرهن منٽ کن روئندو رهيس جيڏي مهل دل جو ڪجهه بار گهٽ ٿيو ته اٿي سلام ميمڻ جي ڪلينڪ تي پهتس۔ ڊاڪٽر سلام حال احوال پڇيو پر ساڻس نه ڳالهائي سگهيس ۽ روئي پيس۔ ڊاڪٽر اٿي اچي ڀاڪر پاتو ۽ چيائين همت ڪر سڀ ٺيڪ ٿي ويندو۔ ڪجهه دير کان پوء بنگل خان آيو ان سان ساڍين ٽين بجي تائين ڪچهري ڪرڻ کان پوء کيس پاڻ سان وٺي ناز باغ ۾ آيس جتي کانئس موبائيل وٺي ان ۾ پنهنجي سم لڳايم ۽ ٺيڪ چئين بجي سياڻيء جو نمبر ملايم۔ بنان دير ڪال اٽينڊ ٿي،مون لائوڊر کولي ڇڏيو ۔ هيلو۔۔۔۔۔۔(سياڻيء جو آواز سماعتن تي پيو ڄڻ ڪا ڪوئل ڪو گيت ڳائي رهي هئي) جي خوش آهيو؟ (مون نماڻي انداز ۾ پڇيو) سياڻي: پاڻ نواب شاھ اسپتال جي سرجيڪل وارڊ 3 ۾ مليا هياسون نه؟(سياڻيء منهنجي سوال کي نظر انداز ڪري مون کان سوال پڇيو) جي ها (مون بلڪل مختصر جواب ڏنو،دل چيو اڀ ڏاريندڙ رڙيون ڪيان،منهنجو سمورو بدن ڏڪي رهيو هيو،بنگل به ڀر سان اچي بيٺو) سياڻي:بيڊ نمبر 36 تي؟(وري سوال ڪيائين) جي ها (مون روئڻهارڪو ٿي چيو) سياڻي:سنهڙو ڊگهڙو جنهن مون کي ڪيڪ ۽ چوڙيون گفٽ ڏنيون هيون؟ (سياڻي مون کان مسلسل سوال ڪري رهي هئي پر سندس آواز جي ڏڪڻي محسوس ڪري سگهيس ٿي) جي ها (مون وراڻيو) اوهان آصف جوڻو آهيو نه؟ (سياڻيء آخر روئي پڇيو) جي ها آئون اوهان جو ساڳيو خادم آصف جوڻو آهيان۔ سياڻيء جي موبائيل مان اڀ ڏاريندڙ رڙين ۽ اوڇنگارن جو آواز اچڻ لڳو، بنگل خان به پٽ تي ڌڙام سان وڃي ڪريو ۽ اهو به دانهون ڪرڻ لڳو ۽ کرڙيون هڻڻ لڳو۔ آئون به زاروقطار روئڻ لڳس۔ ڪافي دير دانھون ڪرڻ کان پوء سياڻيء روئندي چيو ته الا اگر اوهان جي مون سان ايتري محبت هئي ته اوهان اظھار ڇو نه ڪيو؟ مون کي ٻڌايو ڇو ڪونه؟ اوهان مون تي ۽ پاڻ تي ڪيڏو ظلم ڪيو آهي؟ اگر ان وقت ٻڌايو ها ته اڄ گڏ ڪو نه هجون ها۔اوهان مون کي ۽ پاڻ کي ڪيڏي تڪليف ڏني آهي۔(سياڻي مسلسل روئندي شڪوه ڪري رهي هئي) مون اوهان کي ٻڌايو ته هو چاهي اهو مون زبان سان کڻي نه ئي ٻڌايو هو پر روڊ تي بيهي هڪٻئي کي ڏسڻ وقت منهنجي اکين اظهار ڪيو جو هو،ڇا اوهان سان منهنجون اکيون نه ڳالهائينديون هيون ڇا؟(مون به روئندي عاجزيء سان وضاحت ڪئي) سياڻي : خير اوهان پريشان نه ٿيو ڇو ته اوهان کي جيترو پريشان ٿيڻو هيو اوهان ٿي چڪا ، اوهان کي جيڪي ڏک سھڻا هئا اهي سھي چڪا هاڻي حڪم ڪيو ڇا ڪرڻو آهي؟ اوهان جيئن چوندؤ ايئن ڪنديس،جيڪو چاهيندؤ اهو ٿيندو،آئون اوهان جي آهيان صرف ۽ صرف اوهان جي آهيان۔اوهان حڪم ڪيو۔(سياڻي سفا جذباتي ٿي مون کي آٿت ۽ تسلي ڏيڻ لڳي۔) منهنجي لاء اهو ڪافي آهي جو اوهان مون کي تسلي ڏني ۽ مون سان ڳالهايو يقين ڪيو منهنجا ٿڪ لھي پيا ۽ هاڻي نه زندگيء کان ڪا شڪوه رهي آهي نه وري ٻي ڪا خواهش باقي رهي۔(مون به پنهنجي ڪيفيت تي ڪنٽرول ڪندي وراڻيو۔) سياڻي : الا يقين ڪيو مون کي اوهان جي هر ٻئي ڏينهن تمام گهڻي ياد ايندي هئي،ڪڏهن ڪڏهن ته ننڊ مان ڇرڪ ڀري اٿي پوندي هيس ۽ سوچيندي هيس ته هي شخص مون کي ايترو ياد ڇو ٿو اچي،ڇو هن جي ياد منهنجو چين ۽ آرام ڦٽايو ڇڏي ٿي پر اڄ خبر پئي، ها اڄ خبر پئي ته منهنجو جانو مون کي ايڏو شدت سان ياد ڪندو هو ۽ تڙپندو هو جو مون کي به ياد ڪرڻ ۽ تڙپڻ تي مجبور ڪندو هو۔(سياڻي هڪ دفعو ٻيهر جذباتي ٿي زارو قطار روئڻ لڳي) هاڻي روئڻ بند ڪيو پليز (مون کيس منٿ ڪندي چيو) سياڻي : ڪيئن نه روئان ؟ ڪيئن نه روئان جو منهنجو جانو منهنجي لاء ڪيڏو نه رنو هوندو ،تڙپيو هوندو، (سياڻي دانهون ڪندي وراڻيو) بنگل خان به اسان جون ڳالهيون ٻڌي زاروزار روئي رهيو هيو۔ سياڻي : ڇا آئون اوهان کي جانو سڏي سگهان ٿي؟ (سياڻي هن ڀيري ڪافي حد تائين پاڻ تي ڪنٽرول ڪري چڪي هئي؟) جي بلڪل سڏي سگهو ٿا اوهان منهنجا مالڪ آهيو ۽ اوهان کي اختيار آهي (مون کيس پيار مان وراڻيو) سياڻي: اڇا هي نمبر اوهان جو آهي؟ جي ها (مون وراڻيو) سياڻي: ٺيڪ آهي آئون اوهان سان رات ڳالهائينديس۔ رات ڳالھ ٻولھ مشڪل ٿي سگهي (مون وراڻيو) سياڻي : ڇو ڳالھ ٻولھ نه ٿي سگهندي؟( سياڻيء حيرت مان وضاحت طلبي ) جي مون وٽ موبائيل ڪانهي هن وقت به هڪ دوست کان ورتي اٿم (مون وضاحت ڏيندي چيو) سياڻي : مون اوهان کي چيو نه اوهان پريشان نه ٿيو ،اوهان مون کي ايڊريس لکرايو آئون اوهان ڏي موبائيل وٺي سڀاڻي ئي موڪلي ٿي ڏيان۔ نه اوهان تڪليف نه ڪيو آئون سڀاڻي تائين موبائيل وٺي ٿو وٺان (مون کيس تسلي ڏيندي چيو) سياڻي : پڪ جي بلڪل پڪ (مون کيس يقين ڏياريو) ان کان پوء سياڻي موڪلايو ۽ ڪال ختم ٿي۔ بنگل ڊوڙي اچي ڀاڪر پائي چمي ڏئي ۽ وڇڙيل محبوب جي ملڻ تي مبارڪون ڏنيون۔ ٻئي ڏينهن مون موبائيل خريد ڪئي جنهن کان پوء ڪلاڪن جا ڪلاڪ اسان موبائيل تي ڪچھري ڪندا هياسين۔ 25 آگسٽ تي حافظ زين ڀٽو آيو جنهن ٻڌايو ته اڄ رات ڄامشورو ڦاٽڪ تي شهيد سميع الله ڪلهوڙو جي ياد ۾ تعزيتي ميڙاڪي جو پروگرام آهي تيار ٿيء ته هلون۔ آئون تيار ٿي ساڻس گڏ ڄامشورو پهتس جتي پروگرام ۾ شرڪت ڪئي سين۔ پروگرام هلندي سياڻيء جي ڪال آئي پر مون ساڻس معذرت ڪندي کيس چيو ته اڄ پنهنجي ڪچھري ڪانه ٿي سگهندي ڇو ته آئون ڪنهن جلسي ۾ آهيان۔ سياڻيء : جلسو ڪٿي آهي؟ ڄامشورو ڦاٽڪ تي (مون کيس ٻڌايو) سياڻي اوهان ڀلي جلسي ۾ شرڪت ڪيو پر ڳوٺ واپس نه وڃجو سڀاڻي پاڻ حيدر آباد ۾ روبرو ملي ڪچهري ڪنداسين۔(سياڻيء خوش ٿيندي ٻئي ڏينهن ملاقات ڪرڻ جو چيو)۔ جي ٺيڪ آهي،جيڪو اوهان جو حڪم (مون کيس وراڻيو) ٻئي ڏينهن صبح جو يارهين بجي ڌاري سياڻيء ڪال ڪئي ۽ حڪم ڪيو ته قاسم آباد ۾ فلاڻي جاء تي فلاڻا فليٽ آهن اتي اچو، مون انهن فليٽن وٽ پهچي کيس ڪال ڪئي ته چيائين فليٽن جي بلاڪ A پڇا ڪيو انهن جي سامهون هڪ پان ۽ سگريٽن جي هڪ ڪيبن آهي اتي اچي بيهو۔ ڪجهه ئي دير ۾ آئون اتي پهتس ۽ کيس آگاھ ڪيم۔ سياڻيء چيو مٿي ٻي منزل تي اچو منهنجو فلاڻو نمبر فليٽ آهي۔ مون سياڻيء کي منٿ ڪندي چيو ته پليز سامهون گيلريء ۾ ڪجهه دير اچي بيهو آئون پري کان ئي اوهان جو ديدار ڪري واپس هليو ويندس۔ سياڻي : پر پري کان ڇو؟ ملاقات ڇو نه؟ (سياڻيء حيران ٿيندي سوال ڪيو) جي جيئن ته تيرهن سال مون وڇوڙي جا گهاء سٺا آهن، ۽ منهنجو گذريل ماضي ڏک پيڙائن،اذيتن سان ڀريل آهي ان ڪري اوچتو ملاقات جي خوشي ۽ اوهان جي سونهن جي تابش شايد آئون برداشت نه ڪري سگهان ۽ منهنجو هانء نه ڦاٽي پئي يا ممڪن آهي هيڏي هجر کان پوء وصل جي پهرين ملاقات ۾ روئي نه پوان ۽ اسان جي پهرين ئي ملاقات جيڪا خوشگوار جي بجاء ماتم ۽ آه و بقا واري ماحول ۾ ٿئي اهو مون کي قبول ناهي ان ڪري ڪجهه ملاقاتون ايئن پري کان ديدار جي صورت ۾ ٿين ته بهتر آهي جيئن منهنجون نظرون تيسين تنهنجي حسن جي تجلين کي سهڻ جي قابل ٿي وٺن،ڪٿي مون سان موسي وارو ڪم نه ٿئي۔ (مون سياڻيء کي منٿ ڪندي ۽ سمجهائيندي چيو) سياڻيء چيو اوهان جي خواهش منهنجي سمجھ کا ٻاهر آهي پر آئون اچان ٿي گيلريء ۾۔ ڪجهه ئي دير ۾ آخر اهو ماهتاب کڙيو جنهن تي زمين جي چنڊ وانگر ڪو به داغ نه هو ، هن جي سونهن جو ڪو ثاني نه هو۔ نه چاهيندي به کيس ڏسي اکين ۾ لڙڪ رقص ڪرڻ لڳا جيڪي مون اگهي لڙڪن کي ان جلوه گر ماهرو جو قسم ڏئي چيو ته اڄ نه نڪرو ڇو ته آئون سندس ديدار هڪ طويل عرصي کان پوء ڪري رهيو آهيان ۽ اوهان ان ديدار ۾ رنڊڪ ۽ رخنو پيا وجهو۔ گهڻين منٿن کان پوء آخر لڙڪن منهنجي منٿ مڃي ورتي ۽ پوء ھڪٻئي کان پري هوندي به هڪٻئي ۾ ايئن گم ٿي وياسين ڄڻ سونهن ۽ عشق ازل جي رنجش ڇڏي هڪ ٿي ويا هجن۔ خبر نه پئي پوي ته اسان ٻنهي مان عاشق ڪير آهي ۽ معشوق ڪير آهي؟،طالب ڪير آهي ته مطلوب ڪير آهي؟ بحرحال سياڻيء ديدار جا سمورا حق دل سان ادا ڪيا ۽ ڪافي دير ايئن ديدار ڪرڻ کان پوء ڪال تي کانئس موڪلايم ۽ ڳوٺ روانو ٿي ويس۔ ٿورن ئي ڏينهن ۾ اسان جون شروعاتي پنج ملاقاتون ايئن ئي پري کان ديدار ڪندي ٿيون۔ اهڙي قسم جي ملاقاتن بابت هڪ ڏينهن ڪال ڪري سوال پڇيائين ته ڇا اوهان جي مون سان ملاقات جي لاء دل نٿي چوي؟ کيس انتهائي سنجيدگيء ۽ احترام مان چيو هيم ته سائنڻ هڪ ڳالھ ذھن ۾ رکي ڇڏجو ته اوهان سان منهنجو عشق عام انسانن جي عشق کان ڪجهه الڳ ۽ منفرد آهي، اوهان جي لاء منهنجا جذيا پويتر آهي ۽ اوهان سان پيار آئون عبادت سمجهندو آهيان ان ڪري اوهان سان جڏهن به ملندس ته اوهان جي عزت ۽ اوهان جي لاء پاڪ جذبن جو تقدس رکندس ان ڪري ديدار ئي ڪافي آهي هڪ ڏينهن آئون ڊيوٽيء تي هيس (انهن ڏينهن ۾ منهنجي ڊيوٽي گورنمينٽ پرائمري اسڪول اسماعيل انڙ ۾ هئي ) ته سياڻيء جي ڪال آئي ۽ چيائين ته اڄ چانھ نه پيتي اٿم ۽ مٿي ۾ سور به آهي سو اچو ته گڏجي چانھ پيئون۔ مون کيس چيو ته آئون پهچان ٿو۔ مون اسڪول کان موڪل ڪئي ۽ قاضي احمد پهچي بس تي چڙهي حيدر آباد پھتس،ان وچ ۾ ٽي ڀيرا ڪال ڪري پڇيائين ڪٿي پهتا آهيو۔ چوٿين ڪال حيدر آباد پهتس ته ڪيائين،جڏهن کيس ٻڌايم ته حيدر آباد پهتو آهيان ته چيائين کير وٺيو اچجو۔ کير وٺي آئون پهريون ڀيرو سندس فليٽ تي پهتس ۽ بيل وڄايم۔ مون کي گهڻو انتظار ڪونه ڪرڻو پيو ۽ در کليو۔ ڪجهه گهڙين جي لاء هڪ ٻئي جي اکين ۾ ڏسندا رهياسين پر جلد ئي هن کي خيال اچي ويو ۽ سلام ڪري اندر اچڻ جو چيائين۔ منهنجي اندر داخل ٿيڻ کان پوء هن دورازو بند ڪيو ۽ هڪ صوفي تي ويھڻ جو چيو پر مون کيس چيو ته جيسين تائين اوهان نه ويهندؤ آئون ڪيئن ٿو ويهي سگهان؟ آخر سياڻي به صوفي تي ويٺي ته آئون به سندس سامهون واري صوفي تي ويهي رهيس۔ سياڻي ڪجهه دير مون ڏي نهاريندي رهي آخر ڳالهايائين۔ سياڻي : جانو خوش آهيو؟ اڃان به جي خوش نه هوندس ته پوء وڏو ناشڪرو هوندس۔(مون مرڪندي چيس) سياڻي : هڪ سوال پڇان جانو؟ جي حڪم ڪيو (انتهائي احترام مان وراڻيم) سياڻي : مون ۾ آخر ڇا آهي جو اوهان پنهنجي جوانيء جا تيرهن سال منهنجي پويان گذاري ڇڏيا؟ (سندس اکين ۾ لڙڪن اچڻ چاهيو) پهريائين ته روئڻ جي ڪار ناهي نه ته آئون به وڏو روئڻو ٻار آهيان ۽ اگر مون روئي ڏنو ته تڪڙ ۾ ريجهندس به ڪونه (مون سياڻيء کي چيو ته سياڻيء اکيون اگهي چيو هيلو ڀلا نه ٿي روئان) اوهان عبادت ڪندا آهيو؟ (مون سياڻيء کان سوال ڪيو) سياڻي : جي ها ڪڏهن ڪڏهن۔ عبادت ڇو ڪندا آهيو؟ (وري کانئس سوال ڪيم) سياڻي :ڇو ته جنهن جي عبادت ڪيان ٿي اهو عبادت جي لائق آهي۔ جيئن هو عبادت جي لائق آهي ايئن اوهان به چاهڻ جي لائق آهيو ان ڪري اوهان کي چاهيان ٿو،منهنجون نگاهون تڏهن اوهان ڏي سجدي ۾ جهڪن ٿيون ۽ ان ۾ هي ته فقط تيرهن سال آهن پر آئون سموري زندگي اوهان جي لاء وقف ڪري چڪو آهيان۔ سياڻي : ڪفر ۾ ٿا وڃو جانو۔ اگر خدا جي تخليق کي چاهڻ ۽ سندس تعريف ڪرڻ ڪفر آهي ته اڄ کان پوء مون کي ڀلي ڪافر سمجهو(سياڻيء کي وراڻيم) ڪافي ديرخاموش ٿي سياڻي مون ڏي غور سان نهاريندي رهي آخر مون کي چوڻو پئجي ويو ته مون کي اکين جون سڀ آيتون هڪ ساهيء ۾ پڙهائيندؤ ڇا؟ سياڻي هڪ وڏو ساھ ڀري چيو اوهان ويھو ته آئون چانھ ٺاهي وٺان۔ ٺيڪ آهي (کيس وراڻيم) سياڻي اندر باورچي خاني ۾ وئي ۽ گيس وارو چلهو کڻي آڻي ڪمري جي فرش تي رکيائين ۔ آئون اٿيس ۽ چلهي جي هڪ پاسي هوء ويٺي هئي ٻئي پاسي آئون وڃي ويهي رهيس۔ سياڻي ڇرڪ ڀري اٿي ۽ مون کي ٻانهن مان وٺي اٿارڻ ۽ مٿي صوفي تي ويھڻ جو چوڻ لڳي پر مون کيس چيو ته منهنجو محبوب هيٺ ويٺو هجي ۽ آئون مٿي ويھان پوء حيف هجي مون تي۔ سياڻي اهي لفظ ٻڌي خاموش ٿي وئي ۽ چانھ ٺاهڻ لڳي۔ چانھ پي چئن ڪلاڪن تائين ڪچھري ڪندا رهياسين پوء موڪلائي ڳوٺ روانو ٿيس۔ ان ملاقات کان پوء ھر ٻئي ڏينهن گڏجي چانھ پيئڻ جو حڪم صادر ٿيندو هو۔ تيرهين ڀيري آئون ساڻس ملاقات ڪري فليٽ تان هيٺ لھي آيس ته سياڻيء جي ڪال آئي اٽينڊ ڪرڻ تي سياڻيء جو آواز آيو۔ سياڻي : جانو هڪ سوال پڇان؟ جي پڇو(مون وراڻيو) سياڻي : اوهان منهنجي لاء هيتريون تڪليفون ڪٽيون،بيماريء جو علاج اڌ ۾ ڇڏي موت جي منهن ۾ وڃي منهنجي ڳولا ڪئي اڄ جڏهن آئون اوهان کي ملي چڪي آهيان ۽ اوهان سان راضي آهيان ۽ اوهان سان اڪيلائيء ۾ ملاقات به ڪيان ٿي پوء به اوهان صرف ملاقات ۽ ڏسڻ تائين محدود ڇو آهيو؟ ڇا اوهان جو مون تي ٻيو ڪو به حق ناهي؟ اڃا ته ٻيو ڪو به حق حاصل ناهي البته حق حاصل ٿي سگهي ٿو ۽ ان جو اختيار اوهان وٽ آهي (کيس وراڻيم) سياڻي:موٽي فليٽ تي اچو آئون اوهان کي اهو حق ڏيان ٿي۔ مون اوهان سان نه جنسي خواهش جو ڪڏهن سوچيو آهي نه وري سوچي ئي سگهان ٿو البته پيار ڪرڻ جو حق ملڻ جي صورت ۾ ڪري سگهجي ٿو پر اڃا اهو حق مليو ناهي۔(مون سياڻيء سان وضاحت ڪندي چيو ،سوچيم متان هوء بيرحم خواهشن جي وهڪري ۾ وهي نه وڃي) سياڻي : آئون اوهان کي پيار ڪرڻ جو حق ڏيان پئي نه جانو اوهان واپس موٽي اچو۔ مون کي اوهان جو پيار نه خيرات جي صورت ۾ کپي ۽ نه وري مون تي رحم ڪري احسان جي صورت ۾ کپي بلڪه جڏهن به اوهان سمجهو ته منهنجو اوهان تي حق آهي ته پوء پيار به ڪندس۔ (مون سياڻيء کي وضاحتي انداز ۾ چيو) سياڻي: ڇا مطلب جانو؟ مطلب هي ته هن وقت اوهان منهنجي حال تي رحم پيا ڪيو ته هن هيڏيون تڪليفون سٺيون آهن ان ڪري ويچاري تي احسان ڪجي سو مون کي اوهان جو احسان نه کپي۔(مون کيس سمجهائيندي چيو) سياڻي : ته پوء اوهان ئي ٻڌايو ته مون کي آخر ڇا ڪرڻو پوندو جو اوهان کي اهو حق حاصل ٿئي؟ ان جي لاء اوهان کي مون سان محبت جو اظھار ڪرڻو پوندو ۽ جنهن ڏينهن اوهان دل سان مون سان محبت جو اظھار ڪيو ته پاڻمرادو مون کي اوهان سان پيار ڪرڻ جو حق ملي ويندو۔ (کيس چيم) سياڻي:پوء ڇا آئون ۔۔۔۔ خبردار، متان ڀلجي به تڪڙ ۾ محبت جو اظهار ڪري وجهو (مون سندس اڌ ۾ ڳالھ ڪٽيندي چيو۔) سياڻي پر ڇو جانو (حيرت مان پڇيائين) اهو ان ڪري جو اڃا اوهان مون سان محبت جو اظھار ناهي ڪيو ۽ ان صورت ۾ اوهان مون کي ڇڏي ٿا وڃو،ڏک ٿا ڏيو يا ملڻ بند ٿا ڪري ڇڏيو ان صورت ۾ به اوهان تي ميار نه هوندي پر اگر محبت جو اظھار ڪرڻ کان پوء اوهان ڪنهن ڳالھ ۾ کٽي ٿا پؤ يا زماني جي مجبورين جي ڪري نه ٿا ملي سگهو ان صورت ۾ اوهان بيوفائيء جھڙي سنگين ڏوھ جا مرتڪب بنجي ويندؤ ان ڪري محبت جو اظهار نه ڪرڻ ئي اوهان جي لاء بهتر آهي ۽ جيئن ملاقاتون هلن پيون ايئن هلڻ ڏيو۔ سياڻي: اف خدا هن عشق جھڙو ته مون نه عشق ڏٺو نه وري ٻڌو۔ سياڻي خدا سان مخاطب ٿيڻ کان پوء مون سان مخاطب ٿيندي چيو ته اوهان جي مون کي سمجھ نٿي اچي۔ مون ٽھڪ ڏيئي کانئس موڪلايو ۽ ڳوٺ ڏي روانو ٿي ويس۔ هڪ ڏينهن ڳوٺ واري قبرستان جي وچ ۾ هڪ پراڻي کٻڙ جي وڻ تي چڙهي موبائيل ڪال جي ذريعي سياڻيء سان ڳالهائي رهيو هيه ته سياڻي چيو۔ سياڻي؛جانو هڪ ڪم چوان ڪندؤ؟ جي سائنڻ حڪم ڪيو۔(کيس چيم) سياڻي: هون۔۔۔۔۔۔نه ڇڏيو ڀلا ڇو ڇڏجي سائنڻ اوهان ڪم ٻڌايو(کيس چيم) سياڻي: جانو ڪم ڏکيو آهي اوهان کان ڪونه ٿيندو۔(سياڻيء سمجهائڻ واري انداز ۾ چيو) اوهان ڪم ٻڌايو ته سهي سائنڻ ٿيڻ يا نه ٿيڻ جي خبر پئجي ويندي(کيس منٿ ڪندي چيم) سياڻي:جانو اوهان سمجهو ڇو نه ٿا اوهان کان نه ٿيندو۔ ٺيڪ آهي سائنڻ ،اوهان ڀلي نه ٻڌايو باقي سج لٿي جي آذان تائين اگر ڪم نه ڪري سگهيس ته پڪ سمجهجو مون اوهان سان عشق ڪيو ئي ناهي ۽ سمجهجو ته منهنجو عشق سچو ناهي۔(اهي لفظ الائي ڇو بي اختيار منهنجي زبان مان ادا ٿي ويا ۽ ڪال ڪٽي ڇڏيم)

ڪافي دير سوچيندي گذري وئي ته سياڻيء ڪھڙو ڪم چوڻ پئي چاهيو؟ ڪٿي پيسن جي ضرورت ته ڪانه اٿس؟ پر آئون پيسا ڪيان ۽ هن ڪو ٻيو ڪم ٿي چيو ته آئون ته وڏي دعوي ڪري ويٺو آهيان ۽ خدا ڄاڻي ٿو ته مون ساڻس سچو عشق ڪيو آهي (پريشانيء وچان خود ڪلامي ڪرڻ لڳس) اي خدا منهنجي مدد فرماء ۽ منهنجي عشق جي پت رک (خدا کان روئي دعا گهرڻ لڳس) ٻه ڪلاڪ مسلسل سوچيندو رهيس ته ڪھڙو ڪم ٿي چيائين پر ڪجهه سمجھ ۾ نه پئي آيو ۔ مٿي ۾ سور محسوس ٿيڻ لڳو جنهن ڪري گهر آيس ۽ گهر واريء کي چانھ ٺاهڻ جو چيم۔ پندرهن منٽن ۾ چانھ ملي جيڪا پيئڻ کان پوء ڳوٺ جي مڊل اسڪول جي گيٽ آڏو واٽر جي پل تي اچي ويٺس ۽ ڪافي دير سوچيندو رهيس پر ڪجهه به سمجھ ۾ نه پئي آيو۔ وقت تيزيء سان گذري رهيو هو ۽ جيئن جيئن وقت گذرندو پئي ويو تيئن تيئن پگهر اچڻ لڳا هاڻي پاڻ تي ڪاوڙ اچڻ لڳي ته مون کي ايئن چوڻ جي ضرورت ئي ڪهڙي هئي؟ پر حقيقت ته اها هئي ته اهي لفظ مون ڄاڻي واڻي نه چيا هئا بلڪه بي اختيار منهنجي زبان مان نڪري ويا هئا۔ آخر وقت سفا اچو ويجهو پيو ۽ سج لٿي ۾ اندازي موجب ڪي ڏھ بندرهن منٽ مس بچيا هيا ۽ مون کي ته اڃا ڪم جي ئي خبر نه پئجي سگهي هئي ڪم ڪرڻ ته پري جي ڳالھ رهي۔ آخر مون روئي ڏنو ۽ روئندي روئندي اوچتو منهنجي اکين جي اڳيان چند لمحن جي لاء اونداھ ٿي وئي پر اوچيو هڪ روشنيء جو ڪرڻو پيدا ٿيو جيڪو سموري دماغ ۾ ٽڙي ويو ۽ بند اکين کي هڪ منظر نظر آيو اهو منظر فقط ٻن يا ٽن سيڪنڊن تائين نظر آيو۔ اکيون کولي لڙڪ اگهي موبائيل تي هڪ نمبر ملايم۔ هيلو (فون مان آواز آيو) هيلو سائين! ڊاڪٽر زمان صاحب ٿا ڳالهايو؟ جي ادا حڪم ڪيو؟ (زمان وراڻيو) سائين آصف جوڻو ٿو عرض ڪيان زمان: اڙي آصف ڇا حال آ؟ سائين ڪچھري بعد ۾ ڪنداسين مون کي ايمرجنسي آهي مهرباني ڪري فلاڻي شخص جو نمبر ڏيو۔ زمان: ميسيج ڪيان ٿو نمبر ادا۔ مون قبرستان ڏي ڊوڙ پاتي جتي پھچي ساڳئي کٻڙ تي چڙهي ميسيج چيڪ ڪيم جنهن ۾ هڪ موبائيل نمبر موڪليو ويو هو۔ مون سياڻيء جو نمبر ملايو۔ ٻن رنگن وڄڻ کان پوء ڪال اٽينڊ ٿي ۽ سياڻيء جا ٽھڪ گونجيا۔ سياڻي: ٽھڪ ڏيندي ٽوڪيا لھجي ۾ پڇيو ڪم ڪو نه ٿيو نه جانو؟ ڪم ٿي ويو سائنڻ (مون وراڻيو) سياڻي: اوهان کي يقين آهي ته اوهان کي جيڪو مون ڪم ٿي چيو اوهان اهو ئي ڪم ڪيو آ؟ جي جيترو مون کي پنهنجي عشق تي يقين آهي ايترو ئي يقين اٿم ته ڪم اهو ئي ڪيو اٿم جيڪو اوهان چوڻ ٿي چاهيو۔(سياڻيء کي يقين سان وراڻيم) اوهان ڪاغذ قلم کڻي وٺو۔(کيس چيم) سياڻي: ڇااااااا؟ (دانهن ڪندي) ڪاغذ قلم کڻي وٺو۔(کيس ٻيھر چيم) هڪ منٽ کڻي ٿي اچان (حيران ٿي چيائين) ڪجهه دير کان پوء سياڻيء جو آواز آيو سياڻي: جي ٻڌايو۔ مون کيس نمبر ٻڌايو،نمبر لکڻ کان پوء انتهائي حيرت مان پڇيائين (هي فلاڻي جو نمبر آ) جي ها (مون وراڻيو) منهنجي ڳالھ ٻڌي سياڻي دانهون ڪري روئڻ لڳي ۽ مون کي ڪنهن شيء جي ڪرڻ جو آواز آيو۔ ڪجهه دير کان پوء سياڻيء روئندي هيلو چيو۔ اوهان روئي ڇو رهيون آهيو؟(مون کانئس پڇا ڪئي) سياڻي: اوهان کي منهنجو قسم آهي سچ سچ ٻڌائجو ۔ جي پڇو ،اوهان سان ڪوڙ ڳالهائڻ جو تصور به نٿو ڪري سگهان(کيس يقين ڏياريندي چيم) سياڻي : اوهان کي ڪيئن خبر پئي ته مون اوهان کي ان شخص جي نمبر وٺڻ جو ڪم ٿي چيو؟ اڳ ۾ اوهان ٻڌايو ته اوهان ڪھڙو ڪم ٿي چيو ؟ (مون کانئس سوال ڪيو) سياڻي: مون کي منهنجي رب جو قسم آهي مون اوهان کي اهو ئي ڪم ٿي چوڻ چاهيو پر حيران آهيان ته اوهان کي ڪيئن خبر پئي ته مون اوهان کي ڇا ٿي چيو؟ ڇا اوهان ان شخص کي سڃاڻندا آهيو؟(سياڻي حيران ٿيندي پڇا ڪئي) هڪ ڀيرو مون ان شخص کي پري کان ڏٺو هيو ان وقت مون سان هڪ دوست به گڏ هو ان مون کي چيو هو ته فلاڻو شخص پيو اچي ،اوهان اتي بيھو ته آئون ان سان ملي وٺان وڌيڪ منهنجي ان سان ملاقات ناهي رهي (مون سياڻيء کي ٻڌايو) سياڻي: پر اوهان کي ڪيئن خبر پئي ته مون کي ان جو نمبر کپي؟ ڇا اوهان وٽ ڪو وظيفو آهي يا جادوگر آهيو؟ (هن حيران ٿيندي پڇيو) ڪو وظيفو ناهي هوندو هي شايد عشق جو معجزو هو پوء مختصر واقعو بيان ڪري ٻڌايم ته خيال ۾ مون کي اهو شخص نظر آيو هو جنهن مان خبر پئي ته اوهان ڇا ٿي چيو،بعد ۾ هڪ دوست کان فون ڪري نمبر وٺي اوهان کي لکرايم ۽ بس۔(مون کيس حقيقت بيان ڪري ٻڌائي) نومبر 2009ع تائين سندس فليٽ تي ۽ هڪ ملاقات صدر واري علائقي جي فاران هوٽل تي ٿي ٽوٽل ٽيتاليھ ملاقاتون ڪري چڪا هياسين ان کان پوء حالتن ٻن طرفن کان رخ موڙيو۔ هڪ ته حافظ زين ڀٽو کي بار بار جسمم جي ميمبر شپ جي لاء لڳاتار منٿون ڪندو رهيس پر ميمبر نه پئي ڪيائين،ٻئي طرف جيئي سنڌ قومي محاذ قاضي احمد جي دوستن سائل لاکو،ڊاڪٽر سلام ميمڻ ۽ ڏاڏو مهر منٿون ڪري چوندا رهيا ته اسان کي خبر آهي ته تون جسمم جو عاشق آهين پر جيسين اتي باضابطه تو کي ميمبر ڪن تيسين عارضي طور تون جسقم يونٽ قاضي احمد جي سيڪريٽري طور ذميواريون نڀاء ۽ اسان کي رڪارڊ به مينٽين ڪري ڏي پر مون کين جواب ڏنو۔ جسقم جي دوستن اهي ڳالهيون حافظ زين کي چيون جنهن مون کي چيو ته فلحال اوهان جسقم ۾ ڪم ڪيو جڏهن ضرورت محسوس ٿي اوهان اتان استعفا ڏئي جسمم جوائن ڪجو۔مون سندس چوڻ تي جسقم جي ميمبر شپ ورتي پر کين آگاھ ڪيم ته جڏهن جسمم ميمبر شپ ڏني آئون هليو ويندس انهن به ان ڳالھ کي قبول ڪيو ۽ مون جسقم ۾ ڪم ڪرڻ شروع ڪيو۔ مون دوستن سان گڏ ڪافي قومي ڪچهريون ڪيون ۽ نوان يونٽ کوليا جن مان سوائي مھر جو يونٽ به هڪ هو جنهن اڳتي هلي قاضي احمد جي قومي سياست تي وڏي گهرا اثر ڇڏيا۔ ٻئي پاسي سائنڻ سياڻيء ۽ منهنجي عشق جي حالتن به رخ مٽايو۔هڪ ڏينهن مون کيس ڪال ڪئي جيڪا جيئن ئي اٽينڊ ٿي اڳيان سياڻيء جي زاروزار روئڻ جو آواز آيو۔ آئون پريشان ٿي ويس ۽ کانئس پڇا ڪيم ته ڇا ڳالھ آ سائنڻ اوهان روئو ڇو پيون؟ سياڻي : آئون اوهان سان بي پناھ محبت ٿي ڪيان، آئون اوهان کان سواء ھاڻي هڪ پل به پري نٿي رهي سگهان ،

منهنجي زندگي اوهان کان سواء اڌوري آهي پليز پليز پليز اوهان هاڻي جو هاڻي مون وٽ پھچو، مون کي اوهان جي ضرورت آهي،آئون اوهان کي ڪڏهن به ڪانه ڇڏينديس، ڪڏهن به اوهان سان بيوفائي نه ڪنديس پليز مون وٽ پھچو (سياڻي هيجان جي حالت ۾ روئي رهي هئي ۽ مون کي اچڻ جون منٿون ڪري رهي هئي) 

سياڻي ڏاهي ٿيء روء نه آئون اچان پيو،آئون اچان پيو منهنجي سياڻي اوهان پريشان نه ٿيو۔(مون کيس تسلي ڏيندي چيو) آئون هڪدم حيدر آباد روانو ٿي ويس۔ حيدر آباد پھچي سندس فليٽ جي بيل وڄايم۔ ڪجهه دير کان پوء سياڻيء در کوليو ۽ اندر اچڻ جو چيو۔ ٻئي صوفن تي هڪٻئي جي آمهون سامهون وڃي ويٺاسين۔ سياڻيء جون اکيون ڳاڙهيون هيو ۽ اکين تي ڪجهه سوڄ به محسوس ٿي۔ منهنجي دل چيو پاڻ کي سزا ڏيان،پاڻ کي ڌڪ هڻان ڇو ته سياڻي منهنجي ڪري رني آهي پر سوچيم هوء اڳيئي روئندي رهي آهي ويتر کيس تڪليف اچي ويندي ان ڪري پاڻ تي ضبط ڪندي کانئس پڇيم ته ڇا ڳالھ آهي سائنڻ ڇو پريشان آهيو؟ سندس اکين مان لڙڪ وهي آيا ۽ چيائين آئون اوهان سان شادي ڪرڻ ٿي چاهيان۔ سندس اهو جملو منهنجي توقع ۾ ئي ڪونه هو ته هوء اھڙي ڳالهه ڪندي پر کيس ان ڪيفيت مان ڪڍڻ ضروري هو ان ڪري مون هڪ وڏو ٽھڪ ڏنو۔ سياڻي :آئون روئان پئي ۽ اوهان کلو پيا ڇا اوهان منهنجو مذاق پيا اڏايو؟(سياڻيء ناراض ٿيندي پڇيو) منهنجي مجال آ جو آئون اوهان جومذاق اڏايان ۔ آئون ڏسان پيو ته منهنجي سياڻي اڄ ٻار ٿي پئي آهي۔ سياڻي: اوهان جيڪو سمجهو پر آئون اوهان کان سواء هاڻي نٿي رهي سگهان۔ ڏسو سائنڻ! اوهان سان شادي ڪرڻ ۾ منهنجي لاء ڪو به مسئلو ڪونهي پر اوهان جي لاء ٻه مسئلا شادي ڪرڻ شرط ٿيندا ۽ ٽيون مسئلو اڳتي هلي ٿيندو ان ڪري شادي ڪرڻ مناسب ناهي۔(مون کيس سمجهائيندي چيو) سياڻي : ڪھڙا مسئلا ٿيندا؟ سائنڻ هن وقت صرف هڪ مسئلو ٿو ٻڌايان باقي ٻه پيش ايندڙ مسئلا بعد ۾ ٻڌائيندس اوهان کي۔ سياڻي :ٻڌايو ڏس سائنڻ اوهان جي اڳ ۾ ئي شادي ٿيل آهي ۽ ٽي ٻار اٿو، اگر ڪابه عورت مڙس کان خلع وٺي ٿي ۽ ٻي شادي نه ٿي ڪري ته ٻار ان عورت وٽ ئي رهندا پر اگر عورت ٻي شادي ٿي ڪري ته ٻار ان جي پيء جي حوالي ٿيندا سو اگر پاڻ شادي ٿا ڪيون ته اوهان کان ٻار کسجي ويندا ۽ اوهان هڪ ماء آهيو اولاد کان ڌار نه رهي سگهندؤ۔(مون کيس سمجهائيندي چيو) منهنجي اها ڳالھ ٻڌي سياڻي ڪافي دير سوچيندي رهي آخر چيائين۔ سياڻي: جانو ڪو وڪيل اوهان جو واسطي وارو آهي؟ جي ها(کيس چيم) سياڻي:پوء ان سان مشورو ڪري ڏسون؟ڏسون اهو ڪهڙي راء ٿو ڏئي۔ آئون ڏسان ٿو هڪ دوست وڪيل آهي ان سان ڳالهايان ٿو۔(مون کيس دلجاء ڏيندي چيو)۔ موڪلائڻ مھل سياڻيء چيو ته اوهان منهنجي ڳوٺ ويندؤ؟ جي حڪم ڪيو (مون کيس چيو) سياڻي: منهنجا ٻار پنهنجي ناني وٽ رهندا آهن ۽ اتي ئي پڙهندا آهن انهن کي خرچ ڏيڻ جي بهاني بابا ۽ ادا جن سان ملو جيئن آئون مناسب وقت تي کين ٻڌايان ته آئون ان سان شادي ڪرڻ ٿي چاهيان۔ اوهان سندن ايڊريس ڏيو آئون خرچ ڏئي ٿو اچان۔ سياڻيء ايڊريس ڏني ۽ آئون سندس ڳوٺ پهچي سندس والد صاحب ۽ ڀاء سان مليس جن منهنجي گهڻي عزت به ڪئي ۽ خدمت به ڪيائون۔ ڳوٺ پھچي گهر واريء،امان،ننڍڙي سجاد سميت سڀني کي حال احوال ٻڌايم جن سڀني صلاح ڏني ته سياڻيء سان ڀلي شادي ڪر،اسان کي خبر آهي ته تو هن جي لاء تمام گهڻو ڀوڳيو آهي۔ ان ڏينهن گهر واريء سميت سڀني کي سياڻيء سان فون تي ڪچھري به ڪرايم ۽ سياڻي تمام گهڻو خوش ٿي۔ سياڻي اڪثر پنهنجي مڙس طرفان سندس تي تشدد جون شڪايتون به ڪندي هئي ۽ هاڻي سندس طرفان شاديء جي گهر زور پڪڙيندي وئي۔ڪجهه مهينن ۾ اسان جون ستر کن ملاقاتون ٿي چڪيون هيون پر مون عشق ۽ سياڻيء جي لاء منهنجي دل جي جذبن جو تقدس ختم ٿيڻ نه ڏنو هو۔ هڪ ملاقات ۾ سياڻيء شاديء جي لاء تمام گهڻو تنگ ڪيو تڏهن کيس سمجهائيندي چيم۔ ڏس سياڻي 1. تنهنجي اولاد جو مسئلو ٿيندو جيڪو تو کان کسجي سگهي ٿو. 2.آئون تنهنجي زور ڀرڻ تي تو سان شادي ڪري توکي نالو ته ڏئي سگهان ٿو،تو سان پيار ته ڪري سگهان ٿو پر مون تنهنجي عشق کي عبادت ۽ تو کي ديويء جي روپ ۾ ڏٺو آهي جنهن ڪري شاديء کان پوء به تنهنجون حياتياتي ضرورتون پوريون نه ڪندس ان سان منهنجو عشق مري ويندو ۽ آئون ڪنهن به صورت ۾ پنهنجي عشق کي مرڻ نه ڏيندس۔ سياڻي: جانو تون مون کي ان صورت ۾ به قبول آهين۔ آئون اوهان کان اهڙي ڪابه تقاضا نه ڪنديس۔ آئون اوهان کان سواء نٿي رهي سگهان،اوهان منهنجي ڳالھ سمجهو ڇو نٿا،شاديء کان پوء پاڻ گڏ ته هونداسين نه، پاڻ کي ڪير جدا ته نٿو ڪري سگهي نه ان ڪري چوان ٿي پليز شادي ڪر مون سان۔(سياڻيء ليلائيندي چيو) سياڻي شاديء جي ضد تان بلڪل به نه پئي لٿي جنهن ڪري مون ڪافي سوچڻ کان پوء سياڻيء سان شادي ڪرڻ جو فيصلو ڪري ورتم ۽ ساڻس مخاطب ٿيندي چيم ڏسو سائنڻ آئون اوهان سان شادي ڪرڻ جي لاء تيار آهيان پر فقط ان شرط تي ته اوهان مون کي جنسي تعلقات قائم ڪرڻ جو ڪڏهن به نه چؤندو۔ سياڻي: قسم سان نه چونديس جانو مون کي صرف تنهنجو ساٿ کپي، تنهنجو پيار کپي ڇو ته هاڻي آئون تو کان وڌيڪ پري رهيس ته مري وينديس۔(سياڻيء جي اکين مان لڙڪ وهي آيا۔) سانئڻ اگر شاديء کان پوء اوهان اهڙي تقاضا ڪئي ڇو ته سيڪس انسان جي فطري گهرج آهي ۽ اوهان جي اها گهرج مون پوري نه ڪئي ۽ پوء اوهان کي مون سان شادي ڪرڻ تي هڪ پل به پڇتاء ٿيو ته آئون خودڪشي ڪري ڇڏيندس ان ڪري وري به سوچي وٺو (مون کيس آخري ڀيرو سمجهائڻ جي ڪوشش ڪئي) سياڻي:مون کي اوهان جو قسم آئون نه اوهان کان اهڙي گهر ڪنديس نه وري شاديء تي ڪو پڇتاء ٿيندو بس مون کي اوهان جي گهرج آهي۔(سياڻيء پنهنجو حتمي فيصلو ٻڌائيندي چيو) آئون کانئس موڪلائي ڳوٺ موٽي آيس۔ ٻئي ڏينهن پير شاھ موري پھچي هڪ وڪيل دوست روشن مل اوڏ سان مليس جيڪو منهنجو ڪلاس فيلو هيو۔ روشن کي مون سڄو احوال تفصيلي ٻڌايو جنهن کان پوء روشن چيو ته نمبر ملائي مون کي سياڻيء سان ڳالھ ٻولھ ڪراء۔ مون سياڻيء کي ڪال ڪري چيو ته منهنجو وڪيل دوست آهي ان سان مليو آهيان هو اوهان سان ڳالهائڻ ٿو چاهي۔ سياڻي وڪيل سان هڪ ڪلاڪ تائين ڳالهايو ،روشن کيس خلع ۽ ٻارن وٺڻ جو سڄو پروسيجر سمجهايو ان کان پوء روشن کان موڪلائي ڳوٺ پهتس۔ شام جو ڪراچيء ۾ رهندڙ دوست عرفان ڪولاچي کي هڪ سٺي جڳھ ڪرائي تي وٺڻ جي لاء چيم جنهن چيو آئون ڳولا ڪيان ٿو۔ ان کان پوء پنهنجي دوستن گامون،شريف، سائين معشوق ڌاريجو ۽ ٻين ڪجهه دوستن سان صلاح ڪيم جن مان فقط هڪ دوست گامون شادي نه ڪرڻ جي صلاح ڏني۔ آئون پنهنجو ذھن ٺاهي چڪو هيس ۽ شاديء جو حتمي فيصلو ڪري چڪو هيس۔ هڪ ڏينهن شام جو سياڻيء جي فون آئي ۽ مون کي چيائين ته منهنجي طبيعت سخت خراب ٿي پئي آهي ۽ بيهوش ٿي وئي هيس، منهنجو گهر وارو به ٻن ڏينهن جي لاء ڳوٺ ويل آهي اوهان اچو ۽ ڊاڪٽر ڏي وٺي هلو۔ مون کيس اچڻ جو چيو ۽ حيدر آباد روانو ٿي ويس۔ فليٽ تي پهچي بيل وڄايم،ٿوري دير کان پوء سياڻيء دروازو کوليو ۽ مون کي اندر اچڻ جو چيائين۔ مون اندر داخل ٿي سياڻيء کان پڇيو ته ڇا ٿيو آهي طبيعت کي؟ سياڻي: چڪر اچي ويو هو۔ اف الله اوهان ته مون کي پريشان ڪري ڇڏيو هو(مون ٿڌو شوڪارو ڀريندي چيو) سياڻي: اوهان ڪنهن سان ڳالهايو شاديء جي تيارين جي سلسلي ۾؟ جي ها وڪيل سان ڳالهايو اٿم ۽ ڪراچيء جي هڪ دوست کي گهر جي جڳھ جي ڳولا جو بار به رکيو اٿم جنهن چيو ته ڳولا ڪيون ٿا،باقي ته سڀ ڪجهه خلع کان پوء ٿيندو ۔ سياڻي : اوهان رڪشو ڪرائي اچو۔ جي حاضر آئون فليٽ تان لهي رڪشو ڪرائي آيس ۽ سياڻيء کي فون ڪري هيٺ اچڻ جو چيو۔ ٿوري دير کان پوء سياڻي رڪشي ۾ اچي ويٺي ساڻس گڏ ڪجهه سامان به هو۔ ڪهڙي ڊاڪٽر ڏي هلبو؟ (مون سياڻيء کان پڇيو) سياڻي:ڪراچي جي اڏي تي هل(سياڻيء رڪشي واري کي چيو) آئون ڪراچي بس اڏي جو ٻڌي پريشان ٿي ويس ۽ سمجهي ويس ته سياڻيء جو اڄ ئي گهران نڪرڻ جو ارادو آهي۔ کيس سمجهائيندي چيم ته اڄ هتي ڪنهن ڊاڪٽر کي ڏيکاريون ٿا۔هينئر دير ٿي وئي آهي رات سوچيو ڀلي صبح ڪراچي هلبو۔ سياڻي سوچڻ لڳي،رڪشي وارو اسان ڏي نهاري رهيو هيو۔ آخر ڪجهه دير سوچڻ کان پوء سياڻي رڪشي مان لٿي ۽ رڪشي کي واپس ڪرڻ جو چئي فليٽ تي هلي وئي۔ مون رڪشي واري کي سؤ روپيا ڏئي روانو ڪيو۔ فليٽ تي آيس ته سياڻي مٿي تي هٿ ڏئي ڪجهه سوچي رهي هئي،مون کيس سمجهائيندي چيو ته اڃا دوست کي جاء وٺڻ جو چيو اٿم جاء ورتي ڪانهي،نه وري خلع ٿيو آهي سو جلد بازي نه ڪيو وقت تي سڀ ڪجهه ٿي ويندو۔ سياڻي ڪجهه دير سوچيندي رهي ۽ آخر اٿي باورچي خاني ۾ وئي ۽ ڪجهه دير کان پوء چانھ ٺاهي کڻي آئي۔ چانھ پي ڪافي دير تائين ڪچهري ڪندا رهياسين ڪافي اوندھ ٿي وڃڻ کان پوء مون کانئس اجازت گهري۔ سياڻي : ڪاڏي ٿا وڃو؟ ڳوٺ ويندس (مون وراڻيو) سياڻي: آئون اڪيلي آهيان وري طبيعت خراب ٿي پئي ته ڊاڪٽر ڏي ڪير وٺي ويندو؟ ان ڪري رات هتي رهو ،آئون اوهان کي اڄ ڪاڏي به وڃڻ نه ڏينديس۔ ٺيڪ آهي جيئن اوهان جو حڪم (مون مرڪي وراڻيو) ڪافي دير تائين ڪچھري هلندي رهي۔ سياڻيء پڇيو برياني کائيندا آهيو يا ڪجهه ٻيو ٺاهي وٺان؟ برياني کائيندو آهيان پر اڃا بک ناهي دير سان کائبي۔ سياڻي: ٺيڪ آهي مون شام ئي برياني ٺاهي ڇڏي هئي جيڏي مهل بک لڳي ٻڌائجو۔ جي ٺيڪ آهي۔(مون واراڻيو) اسان وري ڪچھري ڪرڻ لڳاسين۔آئون صوفي تي ويٺو هيس ۽ هوء بيڊ تي ڪمبل اوڙهي ويٺي هئي۔ رات ساڍين ڏهين بجي جي قريب هن چيو سردي آهي ڪمبل ۾ اچو۔ نه فلحال آئون هتي ٺيڪ آهيان۔ سياڻي اٿي پٽ وارو پنکو هلائي مون ڏي موڙي ڇڏيائين ۽ پاڻ ڪمبل اوڙھي بيڊ تي ويهي مرڪڻ لڳي۔ ان کان پوء وري ڪچهري ڪندا رهياسين پر سوا يارهين بجي تائين سخت سيء کان منهنجو جسم ۽ ڄاڙي ڏڪڻ لڳا تڏهن کيس چيم ڏاڍا ڏنگا آهيو ايئن چئي اٿي بيڊ تي وڃي ليٽيس۔ هوء پاڻي پيئڻ جي لاء اٿي جڏهن واپس موٽي ته مون پنهنجي ٻانهن سندس مٿي هيٺان ڏني ۽ هن مون کي پهريون ڀيرو ڀاڪر ۾ ڀري ورتو۔ ڪافي دير ڀاڪر ۾ رهڻ کان پوء مون کيس پيشانيء تي چمي ڏني ۽ روئي پيس۔ سياڻي :جانو روء نه اڄ اوهان کي روئڻ ڪانه ڏينديس ايئن چئي هوء پيار ڪرڻ لڳي ۽ هڪ بجي تائين اسان هڪٻئي جي سالن واري اڃ لاهيندا رهياسون۔ هڪ بجي هوء اٿي ۽ چيائين ته پيار ۽ چمين مان ڍؤ ڪونه ٿيندو مون کي بک لڳي آهي ايئن چئي هوء باورچي خاني ۾ هلي وئي ۽ ٿوريء دير ۾ برياني کڻي آئو ۽ چيائين اڄ آئون پنهنجي جانوء کي پنهنجي هٿن سان برياني کارائينديس۔ پوء ھڪ بريانيء جو گرھ پنهنجي هٿن سان منهنجي وات ۾ ٿي وڌائين ۽ هڪ چمي ٿي ڏنائين۔ ماني کائڻ کان پوء هٿ ڌوئي بيڊ تي ستاسين۔ مون کانئس هڪ سگريٽ پيئڻ جي اجازت گهري جيڪا ملي ۽ مون سگريٽ دکايو۔ سگريٽ پي گرڙي ڪري اچي ليٽيس ته هن وري ڀاڪر ۾ ڀري ورتو ۽ چمي ڏنائين ته سگريٽ جي بوء آيس۔ سياڻي : سگريٽ جي بوء تنگ پئي ڪري (هن شڪوه ڪندي چيو) مون سان شاديء کان پوء اڪثر اوهان کي اها تڪليف برداشت ڪرڻي پوندي (مون مرڪندي چيس) سياڻي : پنهنجي جانوء جي لاء مون کي هر تڪليف قبول آهي۔ ايئن چئي هن زور سان مون کي ڀاڪر ۾ ڀريو ۽ پيار ڪرڻ لڳي پر اوچتو هن هڪ غلط حرڪت ڪئي جنهن ڪري هن کي زور سان ڌڪو ڏنم ۽ هوء ڀت سان وڃي لڳي، آئون ان ڪمري مان نڪري ٻئي ڪمري ۾ کٽ تي اچي سمهي پيس ۽ روئڻ لڳس۔ ٿوري ئي دير ۾ هوء به اٿي آئي ۽ اچي چيائين ته هلو بيڊ تي هلي سمهو۔ آئون مسلسل روئندو رهيس ته هن منهنجي هٿ مان وٺي مون کي اٿارڻ جي ڪئي۔ مون کيس چيو ته اوهان ته شادي به ان شرط تي ٿي ڪئي ته اها تقاضا نه ڪنديس پر اڄ پهرين ئي رات ۾ اوهان روزو ٽوڙي ڇڏيو۔ سياڻي : مون کي اوهان جي سچي پيار جو قسم مون اوهان کي آزمائڻ چاهيو هو۔ مون کي معاف ڪجو آئون واعدو ٿي ڪيان ته اڳتي جي لاء اهڙي ڪابه ڳالھ نه ٿيندي۔ پوء اٿي ساڳئي بيڊ تي اچي ليٽي پياسين ۽ پيار ڪندي ڀاڪر ۾ رات گذري وئي۔ رات جو کيس سمجهايم ته گهر ڇڏڻ ۾ جلدي نه ڪيو بس ٿوري ئي وقت ۾ سڀ معاملا سڌا ٿي ويندا پوء شادي ڪنداسين۔ سياڻيء کي به سمجهه ۾ اچي چڪو هو ۽ چيائين ٺيڪ آهي پر ڪوشش ڪري جلدي معاملا اڪلائي وٺو هاڻي اوهان کان هڪ پل به پري گذارڻ مشڪل ٿي پيو آهي۔ اها سڄي رات نه سياڻي مون کي سمهڻ ڏنو ۽ نه مون سياڻيء کي سمجهڻ ڏنو۔ ان رات مون کي خبر پئي ته محبوب جي ٻانهن ۾ گذارڻ جو لطف ۽ قرار ڇا هوندو آهي۔ ان رات مون کي خبر پئي ته محبوب جي چپن جي پيالي جي جام جي ڪيڏي نه عجيب تاثير آهي ۽ ان ۾ ڪيڏو نه نشو ۽ سرور آهي۔ مون ايئن پئي محسوس ڪيو ته مون کي منهنجي سموري زندگيء ۾ مليل لذتون هڪ پاسي رکجن ۽ هيء هڪ رات جي لذت هڪ پاسي رکجي ته هيء سموري زندگيء جي لذتن تي ڀاري هوندي۔ صبح جو سياڻيء کان موڪلايم ته هوء بيتاب ٿي وئي ۽ چيائين هيء سياري جي وڏي رات ايڏي ننڍي ۽ مختصر ڪيئن ٿي وئي؟ مون کيس چيو ته هيء ته هڪ رات هئي پيار جي لاء ته هڪ پوري زندگي به سفا ٿوري پوندي ايئن چئي کانئس موڪلائي ڳوٺ روانو ٿي ويس۔ ان کان پوء ساندھ چار ٻيون ملاقاتون ٿيون جنهن ۾ سياڻي جلدي شاديء جي لاء چوندي هئي ۽ مون به حتمي فيصلو ڪري ورتو هو ته هاڻي تڪڙي شادي ٿي وڃڻ گهرجي۔ جسمم جي قيادت جيڪا جيلن ۾ هئي اهي ٻاهر نڪري چڪا هئا ۽ قومي ڪارڪنن ۾ وڏو جوش و خروش هيو۔ هڪ ڏينهن حافظ زين ڀٽو قاضي احمد ۾ مليو جنهن کي هڪ ڀيرو ٻيهر ميمبر شپ جي لاء منٿ ڪيم جنهن تي هن چيو ته هاڻي سگهو ئي تنهنجي ميمبر شپ ٿيندي۔ ڪچهريء دوران حافظ زين ڀٽو کي ٻڌايم ته آئون سياڻيء سان شادي پيو ڪيان جنهن تي حافظ هڪ طويل ليڪچر ڏيندي چيو ته اگر تون سياڻيء سان شادي ٿو ڪرين ته تون قومي تحريڪ سنڀاليندي يا سياڻيء کي سنڀاليندي۔سڀاڻي تو تي تنظيمي ذميواريون اچي وڃن ته سياڻي تنهنجي ڪمن ۾ رنڊڪ وجهندي ان ڪري ھڪ ڳالھ ذھن ۾ رکي ڇڏ ته ٻه گدرا مٺ ۾ ڪونه ٿيندا ۽ ڪنهن به هڪ عشق سان نڀاء۔ان ڪري فيصلو ڪر ته توکي سياڻيء جو عشق عزيز آهي يا ڌرتيء جو عشق ،ان کان پوء توکي ميمبر ڪنداسون۔ حافظ زين ڀٽو کان موڪلائي ڳوٺ پھتس پر لڳاتار زين جا لفظ ذهن ۾ گونجي رهيا هئا۔ يا سياڻيء جي عشق کي عزيز ڪر يا ڌرتيء جي عشق کي عزيز ڪر۔ هڪ پاسي سياڻي هئي جنهن جي تيرهن سالن کان پوء سندس دل ۾ منهنجي لاء ستل محبت کي مون جاڳايو هو ۽ هيڏي ستل قوم کي جاڳائڻو هو۔ هڪ پاسي سياڻيء کي مون ڪي خواب ڏيکاريا هئا ته ٻئي پاسي قومي آزاديء واري خواب کي ساڀيا ڏيارڻي هئي۔ هڪ پاسي سياڻيء سان وفا وچن ڪيل هئا ته ٻئي پاسي ڌرتيء جو نينهن نڀائڻو هو۔ هڪ پاسي محبوب سان بيوفائيء جو داغ هو ته ٻئي پاسي سنڌ سان بيوفائيء جو داغ هو۔ حافظ زين جسمم جي ميمبر ٿيڻ جي لاء ڪيڏو ڏکيو ۽ اذيتناڪ شرط رکيو هو۔ آخر مون فيصلو ڪري ڇڏيو ته مون کي ڇا ڪرڻو آهي۔ ان رات ننڊ نه آئي ۽ ٻئي ڏينهن حيدر آباد روانو ٿي ويس۔ ان ڏينهن فطرت ايڏيون همتون ڏنيون جنهن جو مون ڪڏهن سوچيو به نه هو۔ فليٽ تي وڃڻ کان اڳ ۾ سياڻيء کان ڪال ڪري اچڻ جي اجازت گهريم ۽ اجازت ملڻ تي اچي بيل وڄايم۔ ٿوريء دير ۾ هوء دروازي تي آئي ۽ مون کي اندر اچڻ جو چيائين۔ آئون اندر داخل ٿيس ته هن صوفي ڏي اشارو ڪندي ويھڻ جو چيو ،مون کيس ويهڻ جو اشارو ڪيو ۽ هن جي ويهڻ کان پوء آ ئون به ويهي رهيس۔ اڄ هوء ڏاڍي خوش نظر پئي آئي پر ٿوريء دير کان پوء سندس خوشيون ماتم ۾ بدلجڻ واريون هيون ۽ چند گهڙين کان پوء هن جي دل تي قيامت بپا ٿيڻ واري هئي جنهن کان هوء بلڪل بي خبر هئي۔ آخر هن مون کان پڇيو خوش آهيو؟ مطمئن آهيان (مون کيس جواب ڏنو) سياڻي : اهو وري ڪهڙو جواب آهي جانو؟(هن ڪجهه نه سمجهندي پڇيو) مون کانئس پاڻي گهريو ۽ هوء پاڻي کڻڻ اٿي۔ ٿوريء دير کان پوء هن گلاس ۾ پاڻي آڻي ڏنو ۽ جيڪو مون هڪ ساهيء ۾ خالي ڪيو۔ سياڻي :جڳھ واري معاملي جو ڇا ٿيو جانو؟ (هن سوال ڪيو) اڄ آئون ڪنهن ٻئي معاملي لاء حاضر ٿيو آهيان سائنڻ ۔ سياڻي : جانو ڪهڙي معاملي جي لاء ؟ اڄ اوهان کي ڪجهه شاعري ٻڌائڻ ۽ ڪجهه هڪ طرفو حال احوال ٻڌائڻ آيو آهيان سائنڻ۔ سياڻي: ٻڌايو شاعري ڀلا اڄ اوهان جي شاعري به ٻڌون(هن ٽھڪ ڏيندي چيو۔) غور سان ٻڌجو سياڻي : ڪنهن تي لکي اٿو شاعري؟ اوهان تي (مون سپاٽ لهجي ۾ چيو) سياڻي : پوء ته غور سان ٻڌبي ،جي ٻڌايو(هن صوفي تي سولي ٿيندي چيو) نظم آهي سياڻي: جي

اڙي سانورا ٻڌ ، سڄڻ بانورا ٻڌ. ته تنهنجو حسن مونکي بيحد ڇڪي پيو. تنهنجا زلف پيرن ۾ ڪڙيون وجهن پيا. تنهنجون دلربائي ادائون سڏن پيون. تنهنجا نيڻ چاهت جون نينڍون ڏين پيا. تنهنجون ٻانهون آهن ٻکڻ لاءِ آتيون. پيو آڇين خلوت ڀريون مونکي راتيون. تنهنجو حسن جوڀن جواني پئي روڪي. چميون ، ڳل ڳراٽيون ۽ ڀاڪر رهاڻيون. هي پازيب جي ڇن ڇنن ڇن ڇنن ۽. اهي ساز سنگيت چاهت جا نغما. تنهنجي شهر جون يار چنچل هوائون. مٺا باغ فطرت ۽ پونم جون راتيون. اهي عيش عشرت جا انمول لمحا. سڀئي لطف رڪجڻ لئه مون کي چون پيا. مڃان ٿو ته منهنجو توسان عشق سانئڻ. مگر عشق افضل آ هوندو وطن سان. هيڏي ڪر نظر سنڌ ساري ٻري پئي. رڳو لانگ بوٽن جا آواز آهن. وري جي_ ٿريءَ جي ڌماڪن پڙاڏا. وري بمّ گولن جي بارش ٿئي پئي. سڄي ڀونءِ رنگجي وئي آ لهوءَ سان. وري کوڙ مقتل سجايا ويا هن. ٿيل سڏ جو جانم هي پڙلاءُ ٻڌ تون. ٿيو سڏ آ منصور پارا اچو سڀ. ڇڏي گهاٽ گهر عشق وارا اچو سڀ. اهو سڏ ٻڌي تنهنجو آصف ڇو ويهي. وڃان پيو ، سڏي سنڌ پئي مان وڃان پيو. تنهنجو عشق جيون کان بيشڪ مٺو آ. مگر عشق ڌرتيءَ کي ارپي ڇڏيو آ. پنهنجو پاڻ سنڌڙيءَ کي ارپي ڇڏيو آ.

سياڻي : هي مون تي هو؟ جي ها پر اڃا هڪ ٻيو به نظم آهي (مون کيس چيو) سياڻي: ٻڌايو اهو به ٻڌون۔

مه جبين ، نازنين ، دلنشين ، دلربا. روڪ مون کي نه تون الوداع الوداع. ديش لئه دوستن جوٽي آ جوٽڻي. دير اڳ ۾ ئي آهي ڪئي مون گهڻي. ٿي نه جيجل جو آئون مياري پوان. مان وڃان پيو وڃان،مان وڃان پيو وڃان.

سونهن تنهنجي سراسر سراپي به پئي. ۽ مزا اڻ ڳڻيا مند آڇي به پئي. نيڻ مڌ جا پيالا به ڇلڪن پيا. لب چمڻ لاء لبڙن کي ٿڙڪن پيا. ڀاڪرن جون ڇنائي هي ڪومل وليون. مان وڃان پيو ڇڏي تنهنجون سانئڻ ڳليون. ٿو مڃان مون وفا جو ڪيو هو وچن. پر ڪيان ڇا جو مشڪل ۾ آهي وطن. مون کي بيشڪ کڻي بيوفا سمجهجان. مان وڃان پيو وڃان، مان وڃان پيو وڃان.

مان مڃان ٿو ته جهوري وجهي ٿي وٿي. ۽ وٿي ۾ ٿي گذري ڏکي زندگي. پر قسم ٿئي ته مرڪي مٺي موڪلاء. مون کي ملندا انهي سان وڏا حوصلا. ۽ دعا ڪر ته مون کان تون وسري وڃين. دل مان آزادي تائين تون نڪري وڃين. ڌيان مقصد تان جيئن ڪين منهنجو هٽي. جنگ دشمن سان جوٽيل اچان مان کٽي. تو سان آزاد سنڌ ۾ اچي مان ملان. مان وڃان پيو وڃان، مان وڃان پيو وڃان.

پر اگر جنگ وڙهندي جي ماريو وڃان. ۽ کڻي ديش پنهنجي تان واريو وڃان. ويس ڪارو نه ڍڪجان ، نه ماتم ڪجان. سنڌ جي سنهن نڪي تون منهنجو غم ڪجان. جي اٿئي عشق مون سان اگر دلربا. هيءٌ منهنجو حڪم يا اٿئي التجا. ديش ڀڳتن مان ڪنهنکي تون پنهنجو ڪجان. پيار مون کان به وڌ تون انهيء کي ڏجان. جنهن مجهان پٽ ڄڻي ديش کي ارپجان. مان وڃان پيو وڃان ، مان وڃان پيو وڃان.

هيء منهنجي وصيعت اٿو آخري. ويڙھ وڙهندي وڃي جي هي آصف مري. پاڪ سنڌوء جي جل سان مونکي تڙ ڏجو. لاش منهنجي کي قومي جهنڊو ويڙهجو. مرڪي مون کي مٽيء منجھ دفنائجو. گيت قومي قبر جي مٿان ڳائجو. ۽ شهيدن جي رت جو به کڻجو قسم. جنگ دشمن سان تيسين نه ٿيندي ختم. جيسين آزاد ٿئي سنڌ منهنجي امان. مان وڃان پيو وڃان ، مان وڃان پيو وڃان.

سياڻي: هيء ڪهڙي قسم جي شاعري آهي جانو؟(سياڻيء ڪجهه نه سمجهڻ واري لهجي ۾ چيو) سائنڻ اڄ جيڪي آئون ڳالهيون اوهان سان ڪرڻ چاهيان ٿو اهي خاموشيء ۽ غور سان ٻڌجو (مون کيس انتهائي سنجيدگيء مان چيو) سياڻي: جي جانو چؤ ٻڌان پئي۔ سائنڻ جڏهن مون اوهان کي پهريون ڀيرو ڏٺو هو ۽ اوهان جي عشق منهنجي دل ۾ جڳھ ٺاهي هئي ان کان اڳ واري زندگيء تي نظر ٿو ڦيريان ته منهنجي زندگيء جو اهو پهريون پيرڊ بغير ڪنهن خاص مقصد جي گذريو پئي يعني جيئڻ جو ڪو خاص مقصد نه هو پر عشق مجاز کان پوء جڏهن آئون ٻاهر نڪتس ته مون دنيا کي هڪ الڳ نظر سان ڏٺو ۽ مون کي به هيء دنيا پهرين واري دنيا کان ڪافي مختلف نظر آئي يا ايئن کڻي سمجهو ته عشق مجاز کان اڳ منهنجي دنيا مون،منهنجي گهر ۽ منهنجي دوستن تائين محدود هئي ڇو ته مون صرف انهن کي ئي ڏٺو هيو ۽ انهن جي ئي درد ۽ خوشيء کي محسوس ڪيو هيو۔ جڏهن عشق مجاز کان پوء اوهان جي ڳولا ۾ نڪتس ته معاشري جي وڌيڪ حصي ۽ ماڻھن کي ڏٺم ،انهن جي رهڻي ڪهڻي،انهن جا ڏک سور ۽ خوشيون ڏٺيم،اهي سماج جي ان پيڙھل طبقي سان تعلق رکندڙ ماڻھو هيا جيڪي ڪا وڏي خوشي يا سک جي تمنا نه رکندا هئا بلڪه سندن ڏکن واريء زندگيء ۾ ڪا هڪ اڌ ننڍي خوشي ملندي هئن ته به ان کي هڪٻئي سان ايڏو ونڊيندا هئا جو سندن اها ننڍي خوشي به کين وڏي خوشي محسوس ٿيندي هئي بلڪل ايئن جهڙيء طرح مون اوهان جي ڳولا ۾ هيترا سال پيڙائن ۽ اذيت ۾ گذاريا هئا پر جڏهن اوهان جي ڳوٺ ويندو هيس ته به توڙي جو اوهان سان نه ملندو هيس ۽ نه وري اوهان کي ڏسندو هيس پر پوء به دل کي تسلي ملي ويندي هئي ته گهٽ ۾ گهٽ پنهنجي محبوب جي ڳوٺ ۾ ته آهيان ۽ انهن رستن کي ڏسي خوش ٿي ويندو هيس ته ڪڏهن منهنجو محبوب هتان گذريو هوندو ۽ ايئن هر شيء سان اوهان جو تصوراتي تعلق جوڙي خوش ٿيڻ جو بهانو ڳولي وٺندو هيس۔ سائنڻ اوهان منهنجي ڳالھ ٻڌو پيون نه؟(مون کائنس پڇا ڪئي) سياڻي: جي بلڪل ٻڌان پئي ها ته مون چيو پئي ته جڏهن مون شاعري ڪرڻ شروع ڪئي ۽ مشاعرن توڙي ٻين سياسي ۽ سماجي پروگرامن ۾ شرڪت ڪرڻ شروع ڪئي تڏهن توڙي جو سنڌ جي مڪمل سماج جو اکين سان مشاهدو نه ڪيو هيم پر انهن پروگرامن ۾ اهڙا دوست مون کي مليا جيڪي سماج جي ان حصي جو مشاهدو ڪري آيا هئا جن سماج جو مڪمل ڍانچو مون کي ڏيکاريو ۽ سماج جون اجتماعي ضرورتون ، گهرجون، ڏک،پيڙائون ٻڌايون جنهن کان پوء فيصلو ڪيو هيم ته آئون سماج جي هڪ جز جي حيثيت ۾ پنهنجو ڪردار ادا ڪيان۔ مون پنهنجي زندگيء کي ٽن مرحلن ۾ ورهايو۔ 1.پرائمري اسٽيج 2.مڊل اسٽيج 3.هائير سيڪينڊري اسٽيج سائنڻ پرائمري اسٽيج اوهان سان ملڻ کان يعني عشق مجاز کان اڳ واري اسٽيج هئي۔ اوهان سان ملڻ،وڇڙڻ ،اوهان جي ڳولا ڪرڻ ۽ وري ملڻ واري پيرڊ کي مڊل واري اسٽيج جو درجو ڏنم ۽ جيئن ته زندگي ارتقا جو ٻيو نالو آهي ۽ رڪجي وڃڻ جو مطلب موت آهي ان ڪري مون کي به فطري طور تي ارتقا ڪرڻي هئي ۽ زندگيء جي هائير سيڪينڊري اسٽيج ۾ داخل ٿيڻو هو سو آئون هاڻي ان اسٽيج ۾ داخل ٿيڻ وڃان پيو۔ سائنڻ ٽارگيٽ يعني ڪم يا مقصد جيڏو وڏو هوندو آهي تڪليفون،آزمائشون ۽ امتحان به اوترا ئي وڏا هوندا آهن يعني جيڏو وڏو مقصد هوندو آهي ان کي حاصل ڪرڻ جي عيوض قيمت به اوتري وڏي چڪائڻي پوندي آهي۔ سياڻي :جي بلڪل جانو ۔ سائنڻ : مون جيڪو پنهنجي سماج جو اڀياس ڪيو ان ۾ مون پنهنجي قومي سماج جي ارتقا رڪيل ڏٺي،سندس ارتقا آڏو بند ٻڌل ڏٺا ۽ سنڌي سماج جي اڳتي وڌڻ کان روڪڻ جي لاء کوڙ ساريون رنڊڪون وڌل هيون۔ سائنڻ سنڌي سماج جي وڏن مسئلن ۾ بک ، بدحالي ،غربت ، بيروزگاري ، انتشار ، انارڪي ، نڌڻڪائي ، سھپ ۽ برداشت جي کوٽ ، ويڳاڻپ ، مايوسي ، تعليم جي کوٽ ، صحت جي سهولتن جي اڻاٺ ، قبائلي سوچ ، ڪارو ڪاري سميت ڪڌيون رسمون ، انتها پسندي ۽ بنياد پرستي ، فرقا پرستي ، لساني نفرتون ۽ ويڇا ۽ ان سميت لا تعداد ننڍا وڏا مسئلا هئا جيڪي سنڌي سماج جي ارتقا کي روڪيو ويٺا هئا جنهن ڪري سنڌ جو سماج آهستي آهستي پستيء اونداھ يعني موت طرف ڌڪجي وڃي رهيو هو۔ سائنڻ اهي ته اهي مسئلا يا مرض هيا انهن جو ڪارڻ صرف هڪ هو ۽ اهو ڪارڻ هو وطني يعني قومي غلامي جنهن جو ذميوار پنجاب ۽ پاڪستان هو جنهن مذھب جي نالي ۾ سنڌ مڪمل غلاميء ۾ آڻي سنڌ تي هنن موذي مرضن کي بڇي ڇڏيون هو جيڪي تمام تيزيء سان سنڌ جي جسم تان ڪنهن وحشي درندي وانگر ماس روڙي کيس کائي رهيا هئا ۽ پنجاب آرام سان سنڌ جي قومي ملڪيت کي تيزيء سان کائي پنهنجو پيٽ ڀري رهيو هيو جنهن ڏوھ ۾ ساڻس هتان جا اڄ جي دور جا جعفر وڏيرا ، نواب ، سردار ، جاگيردار، ملان ۽ پير گڏ هئا۔ سائنڻ اهڙي خطرناڪ صورت حال ۾ جتي هر طرف مايوسي ۽ نا اميدي هئي اتي هڪ اميد جو ڪرڻو جاڳيو ۽ جيئي سنڌ متحدا محاذ نالي هڪ سياسي انقلابي تنظيم ٺھي جيڪا سنڌ جي قومي غلاميء جي خلاف ۽ قومي آزاديء جي لاء سياسي جدوجهد ڪرڻ لڳي ۽ ڪجهه سال اڳ جسمم جا ڪجهه ماڻهو مون سان مليا ۽ مون کي دعوت ڏني ته اوهان به جسمم ۾ شامل ٿي وطن جي آزاديء جي لاء پنهنجو ڪردار ادا ڪيو۔ منهنجا محبوب مون ڪافي غور ۽ ويچار کان پوء جسمم ۾ شامل ٿيڻ جو حتمي فيصلو ڪيو آهي (مون طويل ۽ تفصيلي بريفنگ کان پوء سياڻي ڏي نهاريو جيڪا غور سان منهنجون ڳالهيون ٻڌي رهي هئي) مون کي ماٺ ڏسي سياڻيء مخاطب ٿيندي چيو جانو اوهان جون ڳالهيون سٺيون لڳيون ۽ اوهان اگر ان پارٽيء ۾ ڪم ڪرڻ چاهيو ٿا ته ڀلي ڪيو سٺي ڳالھ آهي۔ سائنڻ مون اوهان کي عرض ڪيو ته جيڏا وڏا ڪم يا مقصد هوندا آهن انهن ۾ خطرا به اوترا وڏا هوندا آهن ۽ انهن مقصدن جي لاء قيمت به اوڏي وڏي ڏيڻي پوندي آهي۔ سياڻي : بلڪل جانو سائنڻ مون کان به ان پارٽيء ۾ شامل ڪرڻ جي لاء ان پارٽيء جي ماڻھن هڪ تمام وڏي قيمت گهري آهي۔ (سياڻي تمام تر خطرن کان اڻڄاڻ هئي ۽ آئون به هر ننڍيء ننڍيء ڳالھ تي روئي ڏيندو هيس پر اڄ ايڏي وڏي فيصلي ڪرڻ کان پوء به اک ۾ ڪو ڳوڙهو نه هو ڳالهائڻ ۾ ڪا هٻڪ نه هئي ، الائي ڪيئن ايڏو مضبوط ٿي چڪو هيس جو هر قيمت چڪائڻ ۽ هر قرباني ڏيڻ جي لاء تيار ٿي ويو هيس۔) سانئڻ : ڪهڙي قيمت گهري اٿن جانو؟ (سياڻيء تجسس مان مون کان پڇا ڪئي۔) سائنڻ اوهان سان بيوفائي ڪرڻ جو شرط رکيو اٿن۔ (مون انتهائي سپاٽ لهجي ۾ وراڻيو) سياڻي :ڇا مطلب جانو؟ (ڇرڪ ڀري اٿي مون وٽ اچي ويٺي) سائنڻ شرط رکيو اٿن ته يا سياڻيء سان نڀاء يا ڌرتيء سان نڀاء۔ پر ان ۾ منهنجو ڪهڙو تعلق پيدا ٿي ويو آئون اوهان کي روڪيان ته نه ٿي ( سياڻيء کي خطري جو احساس ٿي چڪو هو ۽ هن مون کي سمجهائيندي چيو) سائنڻ پارٽي جا دوست چون ٿا ته سياڻي کي وقت ڏيندي يا پارٽيء جي ڪمن کي؟ سائنڻ هو سمجهن ٿا ته ٻن ڪمن ۾ هٿ وجهڻ سان آئون ٻنهي سان انصاف نه ڪري سگهندس۔ سائنڻ دوست چون ٿا ته سڀاڻي جيل وڃي يا روپوش ٿي وڃين ته پوء ڪيئن ڪندي؟ سائنڻ هو صحيح ٿا چون ته آئون ٻئي ڪم گڏ نه ڪري سگهندس ۽ ڪنهن سان به انصاف نه ڪري سگهندس۔ سانئڻ اوهان جو عشق منهنجي رڳن ۾ رت سان گڏ ٿو ڊوڙي پر جنهن رت سان گڏ ڊوڙي ٿو اهو هن ڌرتيء مان پيدا ٿيل اناج کائڻ ۽ ڌرتي جل پيئڻ جي ڪري ٺھيو آهي۔ سائنڻ تونتون ڄاڻين ٿي ها ها تون ڄاڻين ٿي ته تون مون کي منهنجي زندگيء کان به پياري آهين پر وطن هڪ اهڙي عظيم نعمت آهي جنهن تان زندگي،گهر،ٻار ٻچا ۽ مجازي عشق به قربان ڪري وطن جي عزت ۽ عصمت بچائبي آهي سو مون فيصلو ڪري ڇڏيو آهي ته آئون اوهان کان موڪلائي وطن جي آزاديء جي لاء نڪران۔ سانئڻ زندگي رهي ۽ وطن آزادي ماڻي ته موٽي ايندس ۽ وري ملنداسين پر اگر مارجي وڃان پنهنجي هڪ پٽ تي آصف نالو رکجان ۽ کيس وطن جي حوالي ڪجان۔ سائنڻ مون کي معاف ڪجان خدا حافظ۔ آئون سياڻيء کان اٿي روانو ٿيڻ لڳس ته هوء دانهون ڪري مون کي چنبڙي پئي۔ جانو خدا جي واسطي مون کي ڇڏي نه وڃو۔ جانو آئون توهان جي ڪم ۾ رڪاوٽ نه بنبيس۔ جانو توکان سواء آئون نه جي سگهنديس۔ جانو تو مون سان وفا جا وچن ڪيا هئا (هوء دانهون ڪندي منٿون ڪري رهي هئي) مون هن کان پاڻ ڇڏائڻ جي ڪوشش ڪئي پر هن منبنجي ٽنگن ۾ کڻي ڀاڪر وڌو ،مون مشڪل سان سندس کان پاڻ کي الڳ ڪيو ۽ هن کي دانهون ڪندي ڇڏي روانو ٿي ويس۔ جنهن جي اک ۾ لڙڪ ڏسي تڙپي پوندو هيس اڄ ان کي پاڻ روئاڙي نڪري پيس۔ جنهن جي هڪ هڪل تي ڳوٺان ڊوڙي وٽس پهچندو هيس اڄ ان کي ڇڏي روانو ٿي ويس۔ اڄ سندس دانهن جو اثر بلڪل نه پئي ٿيو ڄڻ منهنجا حواس مري چڪا هئا پر مئا نه هئا بلڪه اڄ منهنجا احساس صرف وطن جي لاء هئا۔ اڄ به سياڻيء جي ان ڏينهن وارين دانهن جا آواز ذھن ۾ گونجندا آهن ۽ پر سنڌ جي نڌڻڪن ٻچن ۽ امڙين جي اوڇنگارن ۾ دٻجي ويندا آهن۔ 2010 ۾ جڏهن شهيد سرائي قربان کهاوڙ ، شهيد ذالفقار ڪولاچي ، محترم لالا اسلم پٺاڻ ۽ سندن دوستن جسمم ۾ شموليت ڪئي ان وقت به آئون جيئي سنڌ قومي محاذ ۾ هيس۔ ان کان شايد هفتو کن پوء دولتپور ۾ شهيد بشير خان قريشي جي اچڻ جو پروگرام هو،آئون ۽ منهنجو فرزند سجاد آصف سنڌ ليبارٽي قاضي احمد ۾ جسقم جي دوستن جو انتظار ڪري رهيا هياسين ته سڀ گڏجي دولتپور وڃون ته جسمم جي مرڪزي اڳواڻ سائين حفيظ سنڌي ڪال ڪري چيو ته اڄ اوهان جي جسمم ۾ باضابطا ميمبر شپ پيا ڪيون اوهان علي آباد اچو۔ مون ننڍڙي کي ڳوٺ موٽي وڃڻ جو چيو ۽ پاڻ علي آباد اسٽاپ تي پهتس جتي منهنجي باضابطا ميمبرشپ ٿي ۽ پهرئين ئي ڏينهن مون کي ضلعي ڪاميٽي نواب شاھ تي مقرر ڪيو ويو.صرف اڍائي مهينن جي قليل ۽ مختصر عرصي ۾ نيشنل ڪانگريس جي اجلاس ۾ سينٽرل ڪاميٽي جي اليڪشن ۾ هڪ سؤ ست ووٽ حاصل ڪري سينٽرل ڪاميٽي جو ميمبر ٿيس۔ 2013ع ۾ جسمم جي رابطا ڪاميٽي جو ميمبر ۽ ڪجهه مهينن کان پوء ان جو ڊپٽي ڪنوينر چونڊيو ويو۔ 2017 ع ۾ مرڪزي جوائنٽ سيڪريٽري ٿيس۔ 2018 ع کان مون کي پارٽي طرفان قائم مقام جنرل سيڪريٽري ۽ 2020ع کان مرڪزي جنرل سيڪريٽري جون ذميواريون نڀائي رهيو آهيان۔ سائنڻ سياڻي! تو سان بيوفائي ڪري وطن سان وفا ڪئي هيم ۽ اڄ ڏينهن تائين وفا ڪيان پيون ۽ هميشه ڌرتيء جي لاء جيئندس ۽ ڌرتيء جي لاء مرندس۔ سائنڻ قومي سفر ۾ جيڪي پنج ڪچيون ڦڪيون وکون کنيون اٿم سي ايمانداريء سان کنيون اٿم ۽ ايمانداريء سان کڻندس ۽ گهٽ ۾ گهٽ هن ڀيري ڌرتيء سان بيوفائي ڪري پنهنجي مٿان هڪ ٻيو بيوفائيء جو داغ نه هڻندس۔ 2010ع سياڻيء سان وري ٻيھر نه ملاقات ٿي آهي ۽ نه وري ڪو رابطو رهيو آهي۔ جيئي سنڌو ديش جيئي رهبر سنڌ سائين جي ايم سيد